خاتون وزیر اعلی کی پنجاب حکومت غیر جانبدارنہ تحقیقات کروانے کی بجائے احتجاج کو مارنے پیٹنے اور معاملات کو دبانے میں لگی پے
عوامی جذبات یہ ہیں کہ ملزمان کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دی جائے جبکہ حکامتی اہلکار پرائیویٹ ادارے کا نام چھپانے چوکیدار کا نام صیغہ زار میں رکھنے اور احتجاج کرنے والوں کو دبانے پر ساری توانائیاں صرف کر رہی ہے
لاہور( نمائندہ خصوصی ) تعلیمی سال 2024 کا آج سیاہ ترین دن تھا شہر کے نامور تعلیمی اداروں میں تین نہایت شرمناک واقعات پیش آئے پہلا واقعہ پنجاب کالج گلبرگ میں پیش آیا جہاں ایک طالبہ کو کالج کے چوکیدار نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا طلبہ و طالبات نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا حکومت نے تاحال میڈیا پر پنجاب کاج کا نام میڈیا پر آنے نہیں دیا ملزم چوکیدار کا نام خفیہ رکھا گیا ہے مالکان کالج کی انتظامیہ کے خلاف کوئی اقدام سامنے نہیں آیا سوائے کہ اس ادارے کی رجسٹریشن کی معطلی کے دوسرا واقعہ لاہور یونیورسٹی برائے خواتین لاہور کی ہے جہاں طالبات نے مرد سٹاف کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے خلاف ایک بڑا احتجاج کیا تیسرا واقعہ پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پنجاب کے ہوسٹل میں پیش آیا نامعلوم بلیک مارکیٹر کے ہاتھوں تنگ ایک طالبہ نے خود کشی کر لی حکومت بجائے اس کے ان کے ذمے داران کے خلاف تحقیقات کروا کر سزائیں دیتی اور اس کے آئندہ وقوع پذیر نہ ہونے کے اقدامات کرتی اس کی بجائے واقعات کو دبانے پر لگی ہے کیا یہ مجرمانہ فعل نہیں؟