2022 Latest News University / Board News

پنجاب یونیورسٹی کی قومی اور بین الاقوامی درجہ بندی؛  دعوے اور حقائق

وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز کے چار سالہ دور میں پنجاب یونیورسٹی کا تعلیمی معیار گر گیا ایکڈیمیا کے مطابق یونیورسٹی کی بین الاقوامی رینکنگ 801-1000 سے 1001- 1200 کی سطح پر ا گئی 

دنیا بھر کی اہم جامعات کی درجہ بندی ہر سال سامنے آتی ہے، جس کی بنیاد پر ان کی ترقی اور ملکی و بین الاقوامی ساکھ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس درجہ بندی میں مختلف عوامل کو مدّنظر رکھا جاتا ہے۔ تاہم  کوئی بھی ادارہ یا ویب سائٹ کسی یونیورسٹی کی حیثیت کا جامع جائزہ پیش نہیں کرتے کیونکہ سبھی اپنے نتائج کو اخذ کرنے کے لیے محدود خصوصیات کا  انتخاب کرتے ہیں۔ یہ درجہ بندی عالمی جرائد، اخبارات، ویب سائٹس، پیشہ ورانہ اداروں اور ماہرین تعلیم کی وساطت سے کی جاتی ہے۔ درجہ بندی میں فنڈنگ اور انڈوومنٹ، ریسرچ ایکسیلنس ،  اثر و رسوخ، مہارت و تخصص،  داخلوں، طلباء کے اختیارات، اعزازات، انٹرنیشنلائزیشن، گریجویٹ ملازمت، صنعتی تعلق اور تاریخی شہرت جیسے معیارات پر غور کیا جاتا ہے۔ 

گذشتہ چار سالوں میں پنجاب یونیورسٹی کی کارکردگی سے متعلق مختلف دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر اور موجودہ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر مدعی ہیں  کہ گذشتہ چار سالوں میں پنجاب یونیورسٹی کی درجہ بندی میں ۲۲فیصد بہتری دیکھی گئی ہے  جن کا غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تجزیہ ازحد ضروری ہے۔  

جامعات کی عالمی درجہ بندی کے حوالے سے متعدد ادارے سرگرم عمل ہیں، جن میں کیو ایس ، ٹائمز ہائرایجوکیشن ، شنگھائی اور لیڈن نمایاں ہیں۔ پاکستانی جامعات بالعموم پہلی دو ایجنسیوں کی درجہ بندی میں مقام حاصل کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ گذشتہ دنوں ٹائمز ہائر ایجوکیشن  کی تازہ ترین درجہ بندی سامنے آئی جس میں پنجاب یونیورسٹی کو ملکی سطح پر چودھویں نمبر پر اور بین الاقوامی سطح پر ایک ہزار ایک سے بارہ سو تک کی بریکٹ میں رکھا گیا۔ انتظامیہ کا موقف یوں سامنے آیا کہ وہ کیو ایس درجہ بندی کو زیادہ سنجیدگی سے لیتی ہے۔ اب کیوایس کی درجہ بندی سامنے آئی ہے تو ایک بارپھر پنجاب یونیورسٹی گذشتہ چارسالوں ہی کی طرح آٹھ سو ایک سے ایک ہزار کی بریکٹ میں موجود ہے۔ گویا کسی بھی ترقی سے ایک بار پھر محروم رہی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا ایک اور دعویٰ بھی دلچسپی سے خالی نہیں، ان کے مطابق یونیورسٹی اب دنیا کی پہلی ۵۷ فیصد جامعات میں شامل ہے، جبکہ چار سال پہلے اسے ۷۸ فیصد جامعات میں شامل کیا جاتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال رینکنگ کی اس دوڑ میں کچھ نئی جامعات بھی شامل ہو جاتی ہیں اور یوں یہ فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے۔  کیو ایس رینکنگ ایجنسی نے ۲۰۱۸ میں ۹۵۸ جامعات کی فہرست شائع کی۔ ۲۰۲۱ میں یہ تعداد ۱۰۲۱ تک جاپہنچی۔ ۲۰۲۲ میں اسی ایجنسی نے ۱۳۰۰ جامعات کو رینکنگ میں شامل کیا۔ یوں پنجاب یونیورسٹی خود تو ترقی کا ایک زینہ بھی طے نہ کر سکی ۔ اگرچہ ہم درجہ بندی کی اس چوہوں کی دوڑ پر یقین نہیں رکھتے لیکن جو لوگ اس دوڑ میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ اسی کی بنیاد پر مزید مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کیوایس اور ٹائمز رینکنگ میں شامل پاکستانی جامعات میں پنجاب یونیورسٹی کا بالترتیب آٹھواں اور چودھواں نمبر ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

Related posts

سرکاری کالج کی اراضی سپورٹس بورڈ کو دینے کی تیاری

Ittehad

  اسسٹنٹ پروفیسرز مردانہ کے یہ پچپن کیسز ترقی نہیں ہونے دے رہے ۔کہاں ہیں ابتک بھجوائے کیوں نہیں گئے

Ittehad

بیس گریڈ کے چار پروفیسرز مختلف کالجوں میں پرنسپل تعینات

Ittehad

Leave a Comment