وائس چانسلر بننا بھی کوئی آسان کام نہیں جان جوکھوں کا کام ہے سابق وائس چانسلر اور آئندہ کے اسی پوسٹ کے امیدوار پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد کی چد وجہد کی کہانی بہت کچھ بتاتی ہے وہ ایک طرف تو اپنی وابستہ جماعت سے امید لگائے ہوئے تھے کہ وہ انہیں اپنے مفادات کے لیے دوسرا ٹنیور ضرور دلوائیں گے اور دوسری جانب وہ سابقہ حکومت کے وزیر اعلی اور وزراء سے اس مقصد کے حصول کے لیے پینگیں بڑھانے رہے مگر وہ حکومت نہ رہی تو فکر دامنِ گیر ہوئی کہ اب کیا جائے ایک صحافی کی تحقیق کے مطابق وہ یہ سب کرتے رہے وائس چانسلر بننا بھی کوئی آسان کام نہیں جان جوکھوں کا کام ہے سابق وائس چانسلر اور آئندہ کے اسی پوسٹ کے امیدوار پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد کی چد وجہد کی کہانی بہت کچھ بتاتی ہے وہ ایک طرف تو اپنی وابستہ جماعت سے امید لگائے ہوئے تھے کہ وہ انہیں اپنے مفادات کے لیے دوسرا ٹنیور ضرور دلوائیں گے اور دوسری جانب وہ سابقہ حکومت کے وزیر اعلی اور وزراء سے اس مقصد کے حصول کے لیے پینگیں بڑھانے رہے مگر وہ حکومت نہ رہی تو فکر دامنِ گیر ہوئی کہ اب کیا جائے ایک صحافی کی تحقیق کے مطابق وہ یہ سب کرتے رہے
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پروفیسر کی سیٹ پر مسلم لیگ ن کی من پسند خاتون ٹیچرز کو نوازنے کیلئے میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔
ویب سائٹ ” پاک ڈنسٹی ” سے وابستہ صحافی ناظم ملک کی خبر کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل سلیکشن بورڈ کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے میرٹ پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی بنیادوں پرمن پسند امیدواروں کو انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز ” شعبہ ابلاغیات ” میں پروفیسرز کے عہدے پر تعینات کیا۔
پروفیسر آف کمیونیکیشن اسٹڈیز کی ایک نشست کے مقابلے میں سویرا شامی اور لبنیٰ ظہیر کو نمبر 1 پر قرار دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تینوں غیر ملکی ریفری جو اپنی پسند کے تھے اور سلیکشن بورڈ کے تمام چھ ممبران نے کام کی کارکردگی کی نوعیت مختلف ہونے کے باوجود انہیں ہر لحاظ سے قابلیت، تجربہ اور تحقیق میں برابر قرار دیا ہے۔ جبکہ فارن کوالیفائیڈ پی ایچ ڈی امیدوار یعنی حنان میاں، جنہوں نے ایف سی، یو ایم ٹی اور یو سی پی میں ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں اور 37 امپیکٹ فیکٹر پبلیکیشنز کو تیسرے نمبر پر قرار دیا گیا۔ ایک اور امیدوار شبیر سرور جن کے پاس تمام داخلی امیدواروں میں سب سے زیادہ اشاعت اور تجربہ ہے کو بھی اپنے حق سے محروم کر دیا گیا۔
یہ دونوں تقرریاں ڈاکٹر نیاز نے اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے کی تھیں تاکہ پی ایم ایل (ن) کے بااثر افراد کو خوش کرنے کے لیے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے طور پر اپنی اگلی مدت کے لیے میدان تیار کیا جا سکے۔
یہ سلیکشن بورڈ ٹاک آف دی ٹاؤن ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سویرا شامی معروف صحافی مجیب الرحمان شامی کی بیٹی ہیں اور یونیورسٹی کے باخبر ذرائع کے مطابق لبنیٰ ظہیر کو مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کی حمایت حاصل تھی۔
پنجاب یونیورسٹی کا میرٹ مگر بل بورڈز پر ہے۔ تفصیلات کے مطابق، پوسٹیں جنوری 2021 میں قومی پریس میں مشتہر کی گئیں۔ خط میں یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ اس عمل کو مزید جمہوری بنانے کے لیے فیکلٹی ممبران کی مشاورت سے فہرست بنائی جائے اور میٹنگ کے منٹس محکمہ ایچ آر کو بھیجے جائیں۔
پروفیسر ایس سی ایس کے عہدے کے لیے دو امیدواروں یعنی محترمہ سویرا مجیب شامی اور محترمہ لبنا ظہیر نے مبینہ طور پر ایک کارٹیل بنایا اور ایک اور فیکلٹی ممبر کے ذریعے ماہرین کی مشترکہ فہرست جمع کرائی۔
۔تمام امیدواروں کی تشخیص کا کیس مبینہ طور پر مذکورہ امیدواروں کی طرف سے فراہم کردہ پینل ایکسپرٹس کو بھیجا گیا تھا، اس لیے میرٹ کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کے انتخاب کا امکان بڑھا دیا گیا تھا کیونکہ انجینئرڈ سلیکشن بورڈ نے ان دونوں کو نمبر 1 اور ہر لحاظ سے برابر قرار دیا گیا تھا ۔
غیر ملکی پی ایچ ڈی ڈگری اور امپیکٹ فیکٹر کی اشاعت کے حامل امیدواروں کو اس کے جائز حق سے محروم رکھا گیا۔ مذکورہ امیدواروں کے مقابلے ایچ ای سی کے تسلیم شدہ تحقیقی جرائد، سب سے زیادہ تجربہ، علمی اور فیلڈ ورک/ صحافت کا تجربہ رکھنے والے امیدواروں کو نظر انداز کر دیا گیا۔
گورنر پنجاب، وزیر اعلیٰ، چیف جسٹس اور چیئرپرسن ایچ ای سی اور پنجاب ایچ ای سی سے درخواست ہے کہ وہ میرٹ کی اس سنگین خلاف ورزی کا نوٹس لیں اور مقدمات کو اپنی مرضی کے غیر ملکی ماہرین کے پاس بھیجیں۔ تدریس کے معاملے میں یہ سنگین جرم ہے۔ اگر اساتذہ کی تقرری میرٹ کی خلاف ورزی اور تقرری میں کرپشن کی جائے گی تو قوم ان سے بھلائی کی امید کیسے رکھ سکتی ہے۔
RE