لاہور(عاطف پرویز) پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ، افسران اور ملازمین نے مجوزہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ کے خلاف پریس کانفرنس اور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرہ کی قیادت فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری نے کی۔ مظاہرے میں پنجاب یونیورسٹی اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جاوید سمیع، انجنیئرنگ یونیورسٹی ٹیچینگ ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فہیم گوہر، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اکیڈیمک سٹاف کے صدر ڈاکٹر عاطف، پنجاب یونیورسٹی آفیسرز ویلفیر ایسوسی ایشن کے نائب صدر ڈاکٹر توقیر، ایمپلائز ویلفیر ایسوسی ایشن کے صدر ناصررحمت اور دیگر اساتذہ، افسران اور ملازمین نے شرکت کی۔ پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ممتاز انور چوہدری نے کہا کہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ چند دنوں سے ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر“ Punjab Public Sector Universities Amendment Act 2020”کے نام سے گردش کرنے والی دستاویز سے صوبہ بھر کی جامعات کے اساتذہ میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ باخبر ذرائع سے تصدیق ہوچکی ہے کہ ان مجوزہ ترامیم کا مقصد جامعات کی آزادی اور خود مختاری کا خاتمہ کرنا ہے۔ سینڈیکیٹ میں حاصل وائس چانسلرز کے قانونی اختیارات کو تبدیل کرتے ہوئے ان کے سروں پر“ چئیرمین سینڈیکیٹ“ کے نام سے ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور جج صاحبان کی تعیناتی سے خود مختار جامعات کے انتظامی ڈھانچہ میں متعدد قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں جس سے اساتذہ کے حقوق کے شدید متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پنجاب کے چند ناعاقبت اندیش سیاسی شخصیات اور لالچی بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ سے اساتذہ کی تعلیمی، تحقیقی اور فکری آزادی کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک گھناؤنا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس سارے کھیل میں منصوبہ سازوں کو صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم راجہ یاسر ہمایوں صاحب کی پشت پناہی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ حکومت پنجاب نے اس بدنام زمانہ“ قانون سازی”کی تیاری میں کسی مرحلہ اور کسی سطح پر بھی اساتذہ کو اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ اساتذہ کے منتخب شدہ افراد و تنظیمات سے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ مزید برآں ان مجوزہ ترامیم کے پیچھے چھپے مقاصد اور منطق بارے سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا جارہا جس سے صوبائی وزارت تعلیم کے ذمہ داران کی بد نیتی عیاں ہوتی ہے۔ ہم اس حکومتی رویہ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔اس سازش سے پردہ چاک کرتے ہوئے ہم نے عزت مآب گورنر پنجاب، جو کہ بلحاظ عہدہ صوبہ کی سرکاری جامعات کے چانسلر بھی ہیں، کو عرضداشت پیش کی ہے اور ملاقات کی خواہش کی ہے۔ ہمیں امید کہ عزت مآب چانسلر صاحب جلد اساتذہ کی شکایات کو سنیں گے اور راست اقدامات تجویز کریں گے۔انہوں نے حکومت پنجاب کو خبردار کیا کہ وہ صوبہ کی جامعات سے چھیڑ چھاڑ بند کرے اور اپنی پوری توجہ کرونا کی تباہ کاریوں کے ازالہ کی طرف مبذول کرے۔ اساتذہ اپنے حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں اور وہ جامعات کی خود مختاری وآزادی کے خلاف کی جانے والی ہر مذموم کوشش کی بھرپور مزاحمت کریں گے اور ذمہ داران کا محاسبہ کیا جائے گا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے منتخب اساتذہ، افسران اور ملازمین نے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے باہر سرکاری جامعات کے مجوزہ ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کیا اور سیاسی و افسرشاہی کی یونیورسٹیوں میں مداخلت کے خلاف نعرے لگائے۔
1 comment
یہ ترمیمی ایکٹ بہت بڑا حملہ ہے اسکا ہر طرح سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔