معاملہ اتنا سادہ نہیں سنگین ہے
ایک مرتبہ پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اشتہار دیا ہےکہ پاکستان کی یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ سرکاری یا پرائیویٹ کالجوں کو ایم فل / پی ایچ ڈی میں داخلے کا کوئی اختیار نہیں اور اگر کوئی طالب علم کسی ایسے ادارے سے ڈگری حاصل کریں گا تو ہائر ایجوکیشن کمیشن میں ایسی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جائے گا سوال یہ ہے کہ یہ حکومت بزور قوت ایسے اداروں کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتی یا محض مصلحت اندیشی ہے۔ آخراس مصلحت اندیشی کی وجہ کیا ہے ہمارے ہاں قیام پاکستان سے لیکر آج تک استقامت سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ لوگ دھوکہ دہی سے عوام سے پیسہ بٹور لیتے ہیں جب عوام لٹ چکے ہوتے ہیں تب حکومتی مشینری حرکت میں آتی ہے اور اس غیر قانونی کام کو روک دیا جاتا ہے نہ لٹی ہوئی دولت واپس ملتی ہے نہ ملزمان کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے نہ آئندہ کے لیے روک تھام کا کوئی بندوبست کیاجاتا ہے غیر قانونی بینکنگ کرتی ہوئی فنانس کارپوریشنیں ہوں یا غیر قانونی سب کیمپس ہونے والی یونیورسٹیاں ۔حکومت کوئی بھی ہو کسی بھی دور کی ہو رویہ ایک ہی ہے شائد یہ رویہ بدلنے کا ہے ماضی میں بہت سی یونیورسٹیوں کو خاص ڈسپلن میں اجازت نہ تھی کسی نے نہیں روکا لوگوں نے لاکھوں روپے دیکر ایم فل/پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انہیں تسلیم نہیں کیا نقصان کس کا ہوا بیچارے طالب علموں کا یا ان کے والدین کا کسی ہائر ایجوکیشن کمیشن یا ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کسی سیکرٹری یا وزیر کا ۔سرگودھا یونیورسٹی / بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے سب کیمپس کھولے گئے کئی سال کام کرتے رہے بند کیے گئے تو سٹوڈنٹس نے احتجاج کیے سٹرکیں بلاک کیں عدالتوں نے وقتی حل دئیے معاملہ ٹھنڈا کر دیا آج بھی بہت سی یونیورسٹیوں غیر الحاق شدہ کورسز کروا رہے ہیں کوئی کچھ نہیں کر رہا ۔ کیا یہ ایسے ہی چلتا رہے گا