Editorial Latest News

مہنگی تعلیم کا تریاق؟۔۔۔ تحریر:حسن رشید

پاکستان جیسے ملکوں میں غریب اور مڈل کلاس افراد کی زیادہ تر آمدنی یوٹیلٹی بلز کے بعد بچوں کی تعلیم پر صرف ہوجاتی ہے۔دو دہائیوں قبل شاید یہ صورت حال نہیں تھی ۔لیکن جوں جوں حکومت اعلی تعلیم کے اخراجات اور ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھاتی جا رہی ہے عام افراد کے لئے اس کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔گورنمنٹ کالجز کو یونیورسٹیز میں تبدیل کرنے،ان میں بی ایس فور ائیرزپروگرامز شروع کرکے ان کو خود مختار بنانے کے نام پر حکومت گزشتہ کئی سالوں سے ان اداروں کا بجٹ محدود کرنے کی روش پر گامزن ہے اور اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری ان اداروں کی انتظامیہ پر ڈال دی جاتی ہے اور ان کوچاروناچار طلباءکی فیسوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔جو اب بڑھتے بڑھتے پرائیویٹ اداروں کی فیسوں کی سطح پر آتی جا رہی ہیں۔صوبہ پنجاب کے بہترین سرکاری تعلیمی ادارے انہی حیلوں بہانوں سے غریب اور مڈل کلاس پس منظر رکھنے والے طلباءکی رسائی سے دور کر دئیے گئے ہیں۔ان میں لاہور کا گورنمنٹ کالج،کنئیرڈ کالج،لاہور کالج برائے خواتین ،فیصل آباد کا گورنمنٹ کالج اور دیگر ادارے شامل ہیں جن کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔نیشنلائزڈ اداروں کو ڈی نیشنلائزکرنے کے پیچھے بھی یہی مقاصد کارفرما تھے۔ درحقیقت پنجاب میں پچھلے بیس سالوں میں بلا امتیاز اس کے کہ کس کی حکومت ہے،تسلسل کے ساتھ ایک ہی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے اور اس وقت صوبہ بھر میں ماضی کی روایات کے حوالے سے چند ایک ہی معروف سرکاری ادارے ایسےبچیں ہوں گے جہاں معمول کی فیس میں ذہین مگرغریب طالب علم کالج کی تعلیم حاصل کر سکیں۔
تعلیمی اخراجات سے پیچھا چھڑانے کے حکومتی اقدامات اب محض اعلی تعلیم تک محدود نہیں رہے بلکہ اب ان میں پھیلاﺅ آتا جا رہا ہے۔اگر ہم صوبہ پنجاب کی بات کریں تویہاں گزشتہ دور حکومت میں سیکنڈری سطح پر بہترین تعلیم دینے والے سکولوں کی ایک بڑی تعداد جو سیکڑوں میں تھی نام نہاد بہتری لانے کے نام پر دانش سکول اتھارٹی کے حوالے کرنے کی ابتدا کی گئی جب کہ پرائمری سطح کی تعلیم پر پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کا آسیب اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔علاوہ ازیں بے شمار پرائمری سکولوں کا نظم ونسق مختلف این جی اوز کے حوالے بھی کیا گیا۔ان تمام اقدامات کا مقصد ایک ہی ہے کہ تعلیم کے بجٹ کی ذمہ داریوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔پرائمری اور ثانوی سطح کی تعلیم کی ذمہ داری مخیر حضرات ،خیراتی اداروں اور انٹرنیشل ڈونرز کے حوالے کردی جائے اور تعلیم پر اخراجات کا جو احسان عظیم کیا جارہا ہے اس سے ہاتھ اٹھا لیا جائے۔یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں تعلیم پر کئے جانے والے اخراجات کی موجودہ صورت حال بھی انتہائی شرمناک ہے اور یہ خطے کے تمام ممالک سے کم ترین سطح پر ہیں۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے یہی ہے کہ ہم شرح خواندگی میں بھی ان تمام ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں میں اس طرح کی انتظامی اور مالی تبدیلیوں سے وہاں کے ملازمین تو متاثر ہوں گے ہی دیگر مسائل بھی سامنے آنے کے شدید خدشات ہیں ۔وقتی طور پر تو حکومت تعلیم پر ہونے والے اخراجات کم کرنے میں شاید کامیاب ہو جائے لیکن یہ کوئی طویل المدتی حل نہیں ہے۔ خیرات آج ملتی ہے کل نہیں،ڈونرز ایک سال یا چند سال بعدکسی بھی بات کو بہانہ بنا کر پیسے کی ادائیگی روک سکتے ہیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟خدشہ یہ ہے کہ حکومت کہے گی کہ آپ تو ہماری ذمہ داریوں کے دائرے سے نکل گئے تھے اب اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے خود اقدامات کریں۔جن میں سے ایک فوری اور ظاہری قدم جو اٹھایا جائے گا وہ طلبا پراضافی فیسیں عائد کرنے کا ہوگا۔
تعلیم اور اس کے فروغ کے حوالے سے یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے جس سے مستقبل قریب میں بچنا ناممکن نظر آتا ہے۔کیونکہ کم از کم اس معاملے میں پاکستان” تنہائی کا شکار“ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی رجحان ہے ۔جس کا آغاز سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہو گیا تھا اور اب یہ تباہ کن صورت حال اختیار کر گیا ہے ۔جب تک سوویت یونین نے اپنا وجود برقرار رکھا اور سرمایہ دار دنیا کو مزدور انقلاب کا خطرہ اپنی چوکھٹ پر دستک دیتا محسوس ہوتارہامغربی یورپ حتی کہ امریکا میں بھی سماجی بہبود(تعلیم، صحت اوررہائش) پر سرکاری سطح پر بھاری اخراجات کئے جاتے رہے لیکن جیسے ہی یہ خطرہ دور ہواان حکومتوں نے بھی عوامی بہبود پربھاری اخراجات سے مختلف حیلوں بہانوں سے نہ صرف خودہاتھ کھینچنا شروع کر دیابلکہ اپنے پیروکار تیسری دنیا کے ممالک کوبھی عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے اسی نقش قدم پر چلنے پر مجبور کیا اور کر رہے ہیں۔
اس کی جھلک برطانیہ اور امریکا دونوں ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 1998ءسے قبل برطانیہ کے سرکاری تعلیمی اداروں میں ٹیوشن فیس کا کوئی تصور نہیں تھا۔اس سال لیبر پارٹی کی حکومت نے قانون پاس کیا اور 1999ءسے اعلی تعلیم کے اداروں میں ایک ہزار پاﺅنڈ سالانہ ٹیوشن فیس عائد کردی گئی۔جو 2017-18ءتک آتے آتے 9ہزار پاﺅنڈ سالانہ تک پہنچ چکی ہے یعنی تقریباً20 سالوں میں اس فیس میں 9سو فی صد کا اضافہ ہوچکا ہے اور اب ٹیوشن فیس کو افراط زر کی شرح سے مشروط کرکے گویاہر سال خود کار طریقے سے اس میں اضافے کا راستہ بھی کھول دیا گیاہے۔اعلی تعلیم کو اس قدر مہنگا کرنے کے بعد سٹوڈنٹ لون کا اجراءکرکے بنکوں کوغریب اور مڈل کلاس خاندانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا گیا۔حیرت کی بات ہے کہ سوویت یونین کے انہدام یعنی 1991ءتک برطانیہ میں سٹوڈنٹ لون کا کوئی تصور موجود نہیں تھاکیونکہ تعلیمی اخراجات حکومتیں برداشت کرتی تھیں لیکن حالیہ سال تک آتے آتے برطانیہ کے طلباء13ارب پاﺅنڈ کے مقروض ہو چکے ہیں۔
امریکا میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق وہاں سٹوڈنٹ لون کاحجم 15 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور 4کروڑ50لاکھ افراد اس کے مقروض ہیں۔یہ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے کل طلباءکا نصف سے زائد ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے ۔جبکہ سٹوڈنٹ لون کی شرائط کے مطابق یہ قرضہ لینے والے کو نوکری ملنے کے بعد اپنی نصف آمدنی قرضہ واپسی کی مد کے لئے وقف کرنا ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے لئے شادی کرنے،اولاد پیدا کرنے،مکان بنانے یااپنی زندگی کی دیگر منصوبہ بندی کرنے میںشدید مشکل درپیش ہوتی ہے۔اس وقت ان مقروض افراد میں سے 20فی صد سے زائد ڈیفالٹر ہو چکے ہیں یعنی وہ اپنے قرضہ کی اقساط بروقت ادا نہیں کر پائے۔اعلی تعلیم بہت زیاد ہ مہنگی ہونے کی وجہ سے امریکا کے مڈل کلاس خاندانوں میں گریجویٹ افراد کی تعداد میں تسلسل کے ساتھ کمی آتی جا رہی ہے۔
یہ ہے وہ عالمی صورت حال جس کے پس منظر میں ہمیں ہمارے ملک کے حکمرانوں کے تعلیم کی جانب روئیے کو سمجھنا ہو گا۔وہ پرائمری سطح کی حد تک تو تعلیم پربادل نخواستہ کچھ اخراجات کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اعلی تعلیم پر اخراجات سے تیزی سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔گذشتہ اور اس سے پچھلی دہائی میں مختلف سرکاری کالجز کو دوبارہ سے نجی اداروں کے حوالے کرنا،ان کو انتظامی طور پر خود مختار ادارے یا یونیورسٹی کا درجہ دے کر ان کا بجٹ محدود کرنااوریہ کہنا کہ اب اپنے باقی اخراجات خود پورے کرواسی ماڈل کو اپنانے کی طرف اقدامات ہیں جو مغرب اختیار کرچکا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے تمام اہم کالجز یا تو خودمختار بنادئیے گئے یا ان کی پیشانی پر بورڈ بدل کر ان کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔اب کوئی غریب یا لوئر مڈل کلاس خاندان کا طالب علم یا طالبہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔کیا یہ ایک اتفاق ہے کہ جب برطانیہ میں طلباءپر ٹیوشن فیس عائد کرنے اور سٹوڈنٹ لون کے اجراءکا قانون منظور کیا جا رہا تھا،گورنمنٹ کالج لاہور اور دیگر اداروں کو مالی وانتظامی خود مختاری اور بعد ازاں یونیورسٹی کا درجہ دے کر ان کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کا بندوبست کیا جا رہا تھا اور حکومت ان اداروں کے طلباءکے تعلیمی اخراجا ت کی ذمہ داریوں سے بتدریج ہاتھ کھینچ رہی تھی؟
اس میں رتی بھر بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگرپاکستان میں تعلیم کے بعد ملازمت ملنے کے مواقع امریکا جتنے ہوں اور بنکوں کاقرضہ ڈوبنے کے بہت زیادہ خطرات نہ ہوں تو یہاں بھی سٹوڈنٹ لون کاآغازاب تک پوری شدومد کے ساتھ کیا جا چکا ہوتا۔اگرچہ محدود پیمانے پر یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔جیسے ہی شناختی دستاویزات اور مختلف اداروں کے باہمی روابط اس طریقے سے فول پروف طور پر قائم ہو جائیں گے کہ قرضہ ڈوبنے کا خطرہ باقی نہ رہے تو اس خون آشام بلا کو کھل کھیلنے کی مکمل آزادی دے دی جائے گی۔اسی طرح اعلی سطح کی تعلیم بھی آئندہ سالوں میں مزید مہنگی ہوگی اور بچے کھچے کالج اور اعلی تعلیم کے دیگر ادارے بھی غریب اور متوسط طبقے کے طلباءکی رسائی سے دور ہو تے چلے جائیں گے۔ہمارے حکمرانوں کا موجودہ رویہ تو ظاہر کرتا ہے کہ وہ پرائمری تعلیم پر بھی مناسب اخرجات کرنے کے لئے تیار نہیں کجا اعلی تعلیم کے حوالے سے عالمی رجحان سے مختلف روئیے کی ان سے توقع کی جائے۔ اس صورت حال سے مضبوط عوامی ردعمل کے ذریعے ہی بچا سکتا ہے جس کے امکانات فی الحال دور دور تک نظر نہیں آتے۔

Related posts

بینوولنٹ فنڈ کے تعلیمی وظائف کےلیے درخواستیں دینے کی تاریخ اکتیس مئی 2021تک بڑھ دی گئی

Ittehad

میانوالی کی پروفیسر نذیراں بی بی جوانی میں وفات پا گئیں

Ittehad

رمضان المبارک کے دوران سرکاری دفاتر کے اوقات تبدیل کر دئیے گئے 

Ittehad

Leave a Comment