سرکاری ملازمین کو جھانسہ دینے کے لیے موجود حکومت نے اپریل کے مہینے میں فنانس ڈیپارٹمنٹ نے ایک پے اینڈ پنشن کمیشن تشکیل دیا بجٹ میں کہا گیا کہ پے اینڈ پنشن کمیشن کی رپورٹ نہیں آئی بجٹ گزر گیا تو اس کی افادیت بھی ختم ہو گئی جب اس بات کو ممبر ان و چیرمین نے محسوس کیا کہ اسے جاری رکھنے میں حکومت کی سیاسی مرضی شامل نہیں تو انہوں نے بھی کام چھوڑ دیا چار ماہ گزر جانے کے بعد ایک میٹنگ بھی نہیں بلائی گئی یہ رویہ دیکھ کر عبد واجد رانا اور کچھ ممبران نے خود کو اس کیمشن سے الگ کر لیا کچھ عرصہ سے انتہائی اہم عہدے داروں نے ایسے بیانات دیے کہ وہ اس میں اصلاحات لانے کی بجائے اس پورے نظام کو تبدیل کر دینا چاہیے ہیں ایک عرصے سے ڈاکٹر عشرت حسین کی سر براہی میں قائم کمیٹی مبادل سسٹم لانے کی مختلف تجاویز پر سنجیدگی سے غور بھی کر رہی ہے تو یہ کمیٹی کیوں کام کرے عبد ا لواجد رانا نے خاموشی سے استعفیٰ دے دیا پچھلے دنوں جب وزیراعظم عمران خان نے ایک میٹنگ میں یہ کہہ دیا کی پینشن کا اشو گردشی قرضوں سے زیادہ سنگین ہے اسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت پے اینڈ پنشن اصلاحات کی بجائے ان سے جان چھڑانا چاہتی ہے وفاقی حکومت اپنے ملازمین کو 470ارب پیشن کی مد میں خرچ کر دہی ہے جبکہ موجود حاضر سروس ملازمین کی تنخواہیں 500 ہیں مگر اس رقم 470 میں سول ملازمین کی پیشن صرف 100 ارب ہے باقی مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کی ہیں