صوبائی وزیر ڈائزاسٹر مینجمنٹ میاں خالد محمود نے صوبائی حکومت سے منظوری کروا کر ایک ڈائریکٹو کروایا کہ اس کو عملی جامعہ پہنانے جاے تو بیوروکریسی نے پھر وہی روایتی فارمولا نکالا اور گورنمنٹ کالج شیخوپورہ کے بورڈ کو تبدیل کر کے یونیورسٹی بنانے کے لیے فزیبلٹی رپورٹ بنانے کے لیے نیچے بھیج دیا چب یہ خبر استاتذہ اور شہر کے پڑھے لکھے لوگوں تک پہنچی تو ہر جگہ تشویش کی اک لہر دوڑ گئی گورنمنٹ کالج شیخوپورہ ایک بہت کامیاب اور عمدہ ساکھ کا حامل ادارہ ہے اس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے اس سے نہ صرف اساتذہ عوام برائے راست متاثر ہو ں گے رد عمل یقینی تھا اساتذہ نے ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی جنہوں نے پروفیسر اکرم سرا کی سر براہی میں کام شروع کر دیا دیگر اراکین میں پروفیسر خرم علی ورک ،پروفیسر محمد سلیم ،پروفیسر علی وقاص ،پروفیسر کرامت علی، پروفیسر محمد بوٹا اسی، پروفیسر مقصود مغل،پروفیسر محمد افضل شامل ہیں آج آس کمیٹی نے مندرجہ بالا وزیر سے ملاقات کی پرنسپل گورنمنٹ کالج پروفیسر حافظ ثناء اللہ تکنیکی معاونت کے لیے موجود تھے وفد نے صوبائی وزیر کو دلائل دیتے ہوے قائل کرلیا کہ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ کے تشخص کو ختم کر کے یونیورسٹی بنانے کی کوشش غلط ثابت ہو گی اساتذہ کا موقف وزیر موصوف پر واضح کیا کہ کالج اساتذہ یونیورسٹی بنانے کے ہرگز مخالفت نہیں وہ اسے خوش آمدید کہیں گے وہ اپنی خدمات بھی پیش کر یں گے لیکن اگر انڈیپنڈنٹ حیثیت میں قائم کیا جاے اس ضلع میں بہت سی جگہیں سرکاری ملکیت میں موجود ہیں ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر کے وہاں بلڈنگ تعمیر کروا کے تمام دیگر سہولیات فراہم کر کے شروع کیا جائے تو یہ مناسب ہوگا انہوں نے ایسی بہت سی جگہوں کی نشاندھی بھی کی وزیر موصوف نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے ان لائنوں پر کام کرنے کا وعدہ کیا