تحریر: محمد عباس
استاد کی حیثیت کسی معاشرے میں باغباں کی سی ہوتی ہے۔ چمن کی آرائش، پھولوں کی زیبائش، پرندوں کی چہکار، برگ و گل کی مہکار، سب رونقیں، سب رنگ اسی ایک ہستی کی بدولت ہیں۔ اگر استاد نہ ہو تو چمن ایک اجڑے ہوئے دشت کا منظر پیش کرے جہاں جھاڑ جھنکاڑ کے سوا کچھ بھی نہ اگ سکے۔
استاد معاشرے کو کیا دیتا ہے۔ اعزاز، افتخار، اعتماد، اعتبار۔ وہ ذروں کو ستارے بناتا ہے اور فرش کو عرش سے ملاتا ہے۔۔استاد نہ ہو تو ملک کی کل آبادی جانوروں کا ایک ریوڑ بن کے رہ جائے جس کی کوئی اخلاقی قدر نہ ہو اور جسے کوئی بھی اپنے اشارے پر ہانک سکے۔یہ استاد ہے جس کے پڑھائے گئے انسانوں سے قانون بنتے ہیں۔ ملک کے دربار سجتے ہیں اور سلطنت کا کاروبار چلتا ہے۔ جس شخص کو خود پر یا اپنی قوم پر کسی بھی لمحے فخر کا احساس پیداہو، اس کے پیچھے لازمی طور پر کسی استاد کی محنت اور اس کا خلوص کارفرما ہوتا ہے۔ سیاست دان ہو یا آرمی آفیسر، بیوروکریٹ ہو یا جج، پولیس آفیسر ہو یا منصوبہ ساز، سبھی کسی استاد کی نگہداشت کا ثمر ہوتے ہیں۔
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
اس سب کے بدلے میں ہمارا معاشرہ استاد کو کیا دیتا ہے۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے ایک روزگار کی ضمانت (ایک دوست کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں استاد معاشی طور پر گداگری سے ایک درجہ اوپر ہوتا ہے۔) اور اس کے ساتھ عزت کا ایک کھوکھلا سا احساس۔ استاد کو اگر پیٹ کی آگ ستائے تو وہ عزت کے اس لولی پاپ کو چوستا رہے۔پہننے کو تن پر کپڑا نہ ہو تو عزت کا چولہ پہن کر اپنی شرم کو چھپا لے۔ اگر وہ یا اس کے خاندان کے افراد بیمار پڑ جائیں تو اسی عزت کا عرق نکال کے دوا سمجھ کے پی لے۔اگر گرمی لگے تو عزت کی پنکھی جھول لے اور سردی لگے تو عزت کی انگیٹھی بنا کے ہاتھ سینکتا رہے اور اگر اسے کہیں ہتک کا احساس ہو تو اپنے گوشہئ عافیت میں دبک کر عزت کی یہی میلی لوئی اوڑھ کر اپنی ٹوٹی انا کو سلا دے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی خدمت کے عوض استاد کو ایک ایسی خوشحال زندگی ملتی کہ وہ تمام معاشی فکروں سے آزاد ہو کراپنے فریضے کو بہتر انداز میں سر انجام دیتا رہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ استاد کو اپنے فرض سے زیادہ اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ”آنے والی رات کیسے کٹے گی۔“(بڑے شہروں میں رہنے والے اساتذہ کے لیے یہ عوضانہ اتنا کم ہوتا ہے کہ وہ صرف دال روٹی چلانے کے لیے رات گئے تک اکیڈمی یا ہوم ٹیوشن کے چکر میں خوار ہوتے رہتے ہیں۔)اسی استاد کے ہاتھوں چمک پانے والے افسران کوایک تعیش سے بھرپور زندگی کے تمام وسائل مہیا کر دیے جاتے ہیں لیکن استاد اسی طرح سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتا رہتا ہے۔ اسی استادکے ہاتھوں آسمانوں کا سفر کرنے والا شخص اسی استاد کے لیے فرعون بنا بیٹھا ہوتا ہے۔ استاد کچھ کہے تو سن کے اڑا دیا جاتا ہے، استاد کچھ لکھ کے دے تو پڑ ھ کر مٹا دیا جاتا ہے۔
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانوں میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اگر کوئی ان باتوں سے اختلاف رکھتا ہو تو وہ جا کر پنجاب سول سیکرٹیریٹ کے سامنے ان اساتذہ کوخاک آلود حالت میں دیکھ لے جو اپنا ایک معمولی سا حق مانگنے کے لیے گزشتہ اٹھائیس دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور اَربابِ اختیار کی بے حسی اور استاد کی بے توقیری کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ان کا مطالبہ کیا ہے؟سادہ لفظوں میں، وہ ایک ایسا حق مانگ رہے ہیں آج سے چھ سال قبل لاہور ہائی کورٹ نے انہیں دینے کا فیصلہ سنادیا تھا۔ اور گزشتہ چھ سال سے فراعنہئ پنجاب یہ حق دینے سے انکاری ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر دھرنوں، احتجاج میں ناکامی کے بعد اب یہ لوگ اپنا حق لینے کے لیے آخری سانس تک سول سیکرٹیریٹ کے سامنے ڈٹے رہنے کا عزم لے کر آ بیٹھے ہیں۔ گرمی، شور، گرد اور لوگوں کی ہزار ملامت کے باوجود یہ ستائیس دن سے اپنے مطالبے پر قائم ہیں لیکن پھر بھی اے۔سی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اور یخ بستہ دفتروں میں بیٹھے ہوئے جانشینانِ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پایہء استحصال میں لغزش تک نہیں آئی۔
جن کے چہروں پہ سجی ہے یہ زمانے کی دھول
وہ تو ذروں کو ستارے ہیں بنانے والے
آؤ ناقدریِ استاد کا عالم دیکھو
خاک پر بیٹھے ہیں گردوں کو سجانے والے
یہ لوگ دہشت گرد نہیں، مجرم نہیں، باغی نہیں، قوم یا مذہب کے منکر نہیں نہ ہی انہوں نے تشدد یا بد امنی کے ذزریعے اپنا حق زبردستی چھیننے کی کوشش کی ہے۔ استاد معاشرے کے لیے مثال ہے تو ان کا طرزِ عمل بھی مثالی ہے۔ یہ لوگ ایک پر امن طریقے سے نگاہوں میں عرضِ تمنا لیے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ وکیلوں اور مذہبی رہنماؤں کی طرح تشدد پر بھی اتر سکتے ہیں کہ ان کے پاس نوجوان طلبا کی صورت ایک ایسی اندھی طاقت ہے جسے اگر بے مہار کر دیا جائے تو دریاؤں کا رخ بھی موڑ سکتے ہیں لیکن یہ استاد ہیں، غنڈہ گرد نہیں۔ معاشرے کے لیے مثال ہیں اس لیے مثالی طرزِ عمل پر عمل پیرا ہیں۔
ان اٹھائیس دنوں کی روداد کٹھنائیوں اور صعوبتوں سے بھری ہوئی ایک داستان ہے جس کو سمجھنے کے لیے اہلِ دل ہونا کافی ہے اور جسے نظر انداز کرنے کے لیے سینے میں دل کی جگہ پتھر کا ایک بے حس ٹکڑا درکار ہے جو تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے اربابِ اختیار کے جسمِ خاکی میں فراوانی سے ودیعت ہوا ہے۔ قوم کے یہ معمار جنہوں نے آئندہ آنے والی نسلوں کی تقدیر رقم کرنی ہے، اپنے اس معمولی سے جائز حق کے لیے سارا دن سیمنٹ کی پتھریلی اور تپتی سڑک پر بیٹھے رہتے ہیں۔ گرد اور گرمی سے ان کے وجود بے حال ہو رہے ہیں، رات بھر جاری ٹریفک کا بے ہنگم شور ان کے اعصاب پر ہتھوڑے کی طرح برستا ہے لیکن ان کی تقدیر کے مالک چین کی نیند سوتے ہیں اور سکون سے اپنی بے حسی کا مزا لیتے ہیں ابھی رمضان آنے والا ہے۔یہ لوگ روزہ رکھنے کے باوجود بھی سارا دن اسی گرمی میں پڑے اور اپنے حق کے لیے خاموش صدا بنے رہیں گے۔ایسا لگتا ہے کہ اربابِ اختیار کو اس بات کی پروا نہیں کہ یہ زندہ رہتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ ویسے بھی ایسی بے حِس قوم کو استاد کو ضرورت بھی کیا ہے؟
آخر پر اساتذہ برادری کے ان لوگوں کی استقامت، عزم و استقلال، جرأت اور بے باکی کو سلام جو اپنی کمیونٹی کے مفاد کے لیے اپنا گھر بار اور اہل و عیال کو چھوڑ کر یوں سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ اساتذہ کے لیے مثال ہیں ہی، اس کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے لیے بھی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہیں کہ اپنا حق کے لیے کیسے جدوجہد کی جاتی ہے۔
1 comment
Masha Allah, your words has a deep impact. We should not only respect our teaching fraternity but also provide a reasonable bread and butter to have a decent life style.