م
گزشتہ صدی کے آخر میں یعنی انیس سو اٹھانوے میں نواز شریف کے وزیر جناب شیخ رشید احمد نے خواتین کے کالجز قایم کیے ۔ راولپنڈی کے اس وقت بناۓ گۓ خواتین کالجز میں کنٹریکٹ پر 65 خواتین لیکچررز ایک عرصہ کنٹریکٹ پر کام کرتی رہیں سیاسی اور ایسوسی ایشن کی ان کو ریگولر کروانے کی کوششیں بار آور نہ ہو سکیں تو انہوں نے عدالت کےا دروازے پر دستک دی اور انہیں کامیابی ہوئی مگر حکومت گویا ان کے خلاف ادھار کھائے بیٹھی تھی سپریم کورٹ میں سروس ٹربیونل کے فیصلے کو چیلنج کر دیا مگر حکومت کو منہ کی کھانی پڑی مگر ہار پھر بھی نہ مانی مختلف حیلوں بہانوں سے معاملے کو طول دیتی رہی خواتین نے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے پھر ایک مرتبہ انہیں عدالت میں ہی جانا پڑا اور اب دو روز قبل حکومت نے پنجاب سروس ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق رریگولرائز کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے 1998میں اس وقت کی حکومت نے 8 خواتین کالجز قائم کیے کیونکہ ان کی تشکیل میں شیخ رشید کی کاوشوں کو دخل تھا لہذا یہ شیخ رشید کالجز کہلاتے ہیں ان کالجز میں ڈویژنل کمشنر کی سربراہی میں تشکیل کردہ سلیکشن بورڈ نے خواتین لیکچررز کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا انہیں ایکسٹینشن دی جاتی رہی مگر مستقلی کے لیے اقدامات نہ کیے گئے 2008 میں جب سارے پاکستان میں ریگولر ائزیشن کی ان کے لیے پھر بھی کچھ نہ کیا گیا چاروناچار انہوں نے سروس ٹربیونل سے رجوع کیا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو گیا لیکن حکومت پنجاب اپیل میں سپریم کورٹ چلی گئی سپریم کورٹ ے سروس ٹربیونل کا فیصلہ بحال رکھا ۔مگر اس کے باوجود سنیارٹی میں درج کرنے اور دیگر مراعات دین�2