پروفیسر محمد اویس پرنسپل گورنمنٹ شالیمار کالج لاہور کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر لکھی گئی تحریر
انسان اور شعور کا بڑا گہرا بندھن ہے ۔شعور انسان کی ہی گمشدہ میراث ہے ۔جب کسی انسان کو حقیقی شعور مل جاتا ہے تو اس کے دل و دماغ کے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اس شخص کا سینہ علم کے نور سے منور اور آنکھوں میں اک خاص قسم کی شتابی دکھائی دینے لگتی ہے ۔شعور انسان کے سینہ کو کھول دیتا ہے ۔انسان کھلی آنکھوں اور کشادہ دل کے ساتھ دنیا کے علوم و فنون کو اپنے سینے میں جگہ دیتا چلا جاتا ہے ۔
علوم و فنون سے محبت جب عشق میں ڈھل جاتا ہے تو انسان صاحب ادراک ہو جاتا ہے ۔یہ ادراک جب اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو انسان کا نقطہ نظر روشن خیالی کی جانب محو سفر ہوتا چلا جاتا ہے ۔
یہی روشن خیالی تر دماغی اور دل بینا کا سبب بنتی ہے ۔روشن خیالی انسان کو سوچ کے عمیق تر سمندر میں غوطہ زن ہونے پر مجبور کر تی یے ۔روشن خیالی کی بدولت انسان ۔رسوم و رواج اور نام نہاد تصورات کے دائرے توڑتا چلا جاتا ہے ۔اس کا مطمع نظر صرف اور صرف انسان بنتا چلا جاتا ہے ۔روشن خیالی انسان کو وسعت نظر عطا کرتی ہے ۔اس کے سوچنے کا انداز مختلف ہو جاتا ہے ۔انسان کے اندر بے باکی اور جرات رندانہ ،روشن خیالی کے سبب آتی چلی جاتی ہے ۔لگے بندھے اور بنے بنائے تصورات سے تجاوز کرنا ہر کس وناکس کا کام نہیں ہوتا بلکہ یہ وہی کر سکتا ہے جس کو خدا نے شعور کی دولت سے نوازا ہو ۔
انسانی سوچ اور فکر کا مسلسل ارتقاء میں رہنا اک نعمت ہے ۔میری خوش قسمتی کہیے یا بد قسمتی جانئیے کہ میں جب سے دوبارہ لاہور آیا ہوں میری اکثر بیٹھک ایسے ہی رندوں سے رہی ہے ۔ان رندوں سے مراد جام و سبو والے نہیں، بلکہ روشن خیال اور اعتدال پسند ہیں ۔گورنمنٹ کالج لاہور میں مجھے ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب کی سنگت نصیب ہوئی ۔گورنمنٹ شالیمار کالج لاہور میں باقی دوستوں سے تو راہ رسم تھی ہی مگر جس شخص نے میرے فکری دھارے کو موڑا اور جس کے پاس کم بیٹھنے کے باوجود انکے فکر تاریخی و تہذیبی اثرات مجھ پر زیادہ پڑے وہ ہمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر محمد اویس صاحب ہیں ۔میں ان کے پاس بیٹھ کر ہمیشہ تاریخ اور تہذیب کے گلی کوچوں میں گم ہو جایا کرتا تھا ۔
پروفیسر اویس صاحب ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔
جب میں نے کالج میں جوائننگ دی تو اس وقت پرنسپل جناب ڈاکٹر نعیم جاوید تھے ۔ان سے گپ شپ ہوتی رہتی تھی ۔ایک دن خبر ملی کہ کالج میں نئے پرنسپل کے آرڈر ہوئے ہیں مگر وہ جوائننگ کے لیے تیار نہیں ہو رہے ۔میری عادت ہے کہ انتظامی عہدوں کے ردوبدل میں چنداں دلچسپی نہیں لیتا ۔میں نے بات سنی ان سنی کر دی ۔ایک دن میں دوستوں کے ہمراہ کالج کی گیلری میں کھڑا گپیں ہانک رہا تھا تو مجھے کسی نے بتایا کہ وہ سامنے سے گزرنے والے ہمارے نئے پرنسپل پروفیسر محمد اویس ہیں ۔ان کے ساتھ ان کے کچھ دوست بھی خراماں خراماں چل رہے تھے ۔اگلے دن جب کالج آیا تو دیکھا کہ پارکنگ ایریا میں پرنسپل کی گاڑی کھڑی کرنے والی جگہ پر رسی لگا دی گئی تھی ۔جس کو دیکھ کر مجھے اچھا نہ لگا کہ کس نے پرنسپل والی جگہ پہ گاڑی کھڑی کرنی ہے مگر اس رسہ کی گرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی ۔بہرحال اس عمل کو میں نے مناسب نہ جانا ۔
ہم چپ چاپ اپنے کام میں مگن رہے ۔دو چار کلاسوں میں تگڑا بھاشن دیتے اور چائے کے تین چار جام پیتے ۔دوستوں کے ساتھ کھلی گپیں لگاتے اور گندے مند ے لطیفوں سے جی بہلاتے اور گھر کی راہ لیتے ۔ہمیں اس سے کچھ غرض نہیں تھی کہ بڑے دفتر پر کون صاحب براجمان ہیں ۔
مجھے بالکل یاد نہیں ہے کہ پروفیسر اویس صاحب سے پہلا تفصیلی یا مختصر تعارف کب ہوا ۔ایک دو دفعہ پروگراموں میں کمپئرنگ میں الٹے سیدھے شعر سنائے تو وہ زیر لب مسکراتے رہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو جی بھر کے قہقہے لگانے کا ہنر ہی نہیں آتا ۔
ڈاکٹر عنصر اظہر کا تعارف پہلے ہی اویس صاحب کے ساتھ تھا کہ دونوں احباب گورنمنٹ کالج ماڈل ٹاؤن میں اکٹھے پڑھاتے رہے تھے ،اس لیے ان کے ساتھ پرنسپل آفس کبھی کبھار چکر لگا لیتے تھے ۔اس وقت کالج میں ناصر کھوکھر صاحب بھی مسند نشین تھے ۔ان کو تو جنوں کی حد تک افسران بالا کے در و بام کی بلائیں لینے کی دھن سوار رہتی تھی ۔سونے پہ سہاگہ کے مصداق ان دنوں وقاص اکبر بھی اپنی تمام تر رنگینیوں اور جولانیوں کے ساتھ جلوے بکھیر رہا تھا ۔ان دوستوں کی وجہ سے اویس صاحب کے قریب ہوتے چلے گئے ۔ان کے ساتھ گپ شپ ہونے لگی ۔میرے بے باک تبصروں پر بھی توجہ دیتے رہے ۔
ڈاکٹر عنصر اظہر صاحب کے ساتھ مل کر لٹریرئ سوسائٹی کی بنیادیں استوار کیں تو اس کے لیے اویس صاحب کا خصوصی تعاون حاصل رہا ۔ہم دوستوں نے پرنسپل اویس صاحب کی زیرنگرانی مختلف غیر نصابی سرگرمیاں شروع کر دیں ۔اویس صاحب ہر تقریب کے صدر نشین ہوتے تھے ۔مجھے آج تک یاد نہیں کہ ان چار سالوں میں ہم نے ان سے کوئی پروگرام کرنےکی اجازت مانگی ہو اور انہوں نے اس پر نہ کی ہو ۔وہ ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی فرما تے رہتے تھے ۔ہر سال مختلف تقریبات ہوتی رہتی تھیں ۔جن میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،ااقبال ڈے ،میلہ چراغاں اور مشاعرے شامل ہیں ۔ان کے دور میں تعلیمی سیشن کی شروعات ہی روایتی کبڈی کے مقابلے کے ساتھ ہوتی تھی۔ڈھول کی تھاپ پر جب ہزاروں کی تعداد میں طلباء رقص کرتے تو کالج کے درودیوار بھی جھوم اٹھتے تھے ۔انہوں نے سپورٹس کو بھی منفرد رنگ عطا کیا تھا ۔سپورٹس کے سالانہ مقابلے بھی عجب نظارہ لئیے ہوتے تھے ۔ہر سو رنگ برنگی جھنڈیوں اور غباروں سے کا لج گروانڈ کو مزین کیا جاتا تھا ۔لٹریری سوسائٹی کے طلباء نے ان کی داد سے حوصلہ پا کر صوبے اور ڈویثزن کی سطح پر تقریر و تحریر کے کئی معرکے اپنے نام کیے ۔
یہ تو کالج کی غیر نصابی سرگرمیوں کا ہلکا سا تذکرہ ہے مگر ان کے چار سالہ دور میں کالج کی اکیڈمک صورتحال بھی بہت خوب رہی ۔کالج کا رزلٹ ہر سال خوب سے خوب تر ہوتا چلا گیا ۔کالج میں داخلہ کا میرٹ دو سو نمبرز تک بڑھ گیا ۔کالج میں تمام اساتذہ خدمت کے جذبے کے تحت کلاسز لیتے ہیں ۔ اتنی ریگولر کلاسز شاید پنجاب کے کسی کالج میں ہوتی ہوں جتنی شالیمار کالج میں ہوتی ہیں ۔اپریل کے آخر تک طلباء اپنی علمی تشنگی بجھاتے رہتے ہیں ۔ازراہ تفنن کسی دل جلے پروفیسر کا اس کالج کے متعلق جملہ ہے کہ جس طرح اس کالج میں کلاسز کا رواج ہے شاید کسی مدرسہ میں بھی نہ ہو ۔پروفیسر اویس صاحب کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو ڈاکٹر نعیم جاوید صاحب جیسا وائس پرنسپل ملا ۔سچ تو یہ ہے کہ کلاسز کو ریگولر کروانے میں ڈاکٹر نعیم جاوید صاحب کی شبانہ روز محنت شامل ہے ۔انہوں نے بلاناغہ دھیمے انداز میں کلاسز کے پے در پے چکر لگا کر ہر سو امن ہی امن کا پرچم لہرانا ہوتا ہے ۔
اویس صاحب کی وجہ سے کالج کی تعمیر و ترقی کا سنہرا دور شروع ہو گیا ۔اویس صاحب نے کالج کی پارکنگ کو جدت عطا کی ۔انہوں نے کالج کے ہر کونے میں جہاں دھول مٹی ، گردوغبار نظر آتا تھا،دیدہ زیب ٹائلوں سے مزین کر دیا ۔کالج کی بلڈنگ کو نیا رنگ و روپ عطا کیا ۔کالج کا سیمینار ہال جو کاٹھ کباڑ کا مسکن بنا ہوا تھا اس کو شاندار تزئین و آرائش کے ذریعے قابل استعمال بنایا ۔کالج کے گروانڈ کو نئی جہت عطا کی ۔کالج کے اندر صفائی ستھرائی کا انتظام بہتر ہوا مگر ابھی بھی اس پر توجہ کی ضرورت ہے ۔پروفیسرز کے لیے شاندار واش روم تیار کروائے ۔اس سے پہلے پروفیسرز واش روم کی حالت قابل رحم تھی ۔
انہوں نے طلباء کے ریکارڈ کو پروفیسر عبد الحمید صاحب کی معاونت سے آن لائن کروا دیا ۔جدید ذرائع کو خوب استعمال کیا جس کی وجہ کلریکل سٹاف کی طرف پیدا کردہ الجھنوں بہت مدہم ہوتی چلی گئیں ۔
کالج میں کئی نئے پروگرامز شروع کروائے گئے ۔پہلے تو سال ہا سال سے رکی ہوئی ایم اے کی کلاسز دوبارہ شروع کروائی گئیں ۔انہوں نے جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے ڈگری اور ماسٹرز کی سطح پر مخلوط تعلیم کی اجازت بھی دی ۔جس کی وجہ سے لاہور کے اس دور دراز اور قدرے پسماندہ علاقے کی طالبات کو بہت فائدہ ہوا ۔
کالج کے انتظام و انصرام میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو خوب استعمال کیا ۔ایک دن ہم ان کے پاس بیٹھے تھے تو ان کی آنکھوں کی چمک نہیں بھول سکتا جب انہوں نے کہا کہ آج میرے پاس ایک شخص ملاقات کے لیے آیا ۔مجھے مل کر کہنے لگا کہ آپ اس کالج کے پرنسپل ہیں میں نے کہا جی فرمائیے اس نے کہا کہ سر آج دوپہر کو ایک گھنٹہ میں کالج گیٹ کے باہر کھڑا رہا ۔میں نے دیکھا کہ بہت سی طالبات کالج سے نکل رہی ہیں ۔میں نے غور سے دیکھا یہ وہی کالج ہے جس میں چند سال پہلے تک دھینگا مشتی ہوتی تھی ۔کوئی لڑکی ڈر کے مار اس کالج کے قریب سے نہیں گزرتی تھی ۔میں ان دنوں کالج کا طالب علم تھا اب میں سعودیہ ہوتا ہوں ۔آج جب میں نے یہ منظر دیکھا تو آپکو مبارکباد دینے چلا آیا ۔اس طرح کی مثالیں ان کے حسن انتظام پر دال ہیں ۔
اس سال پروفیسر اویس صاحب نے نو مضامین میں بی ۔ایس کی کلاسز شروع کروائی ہیں ۔یہ بھی کالج کی تاریخ کا حسین باب ہے جس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔کالج کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے جو کچھ ہو سکا اویس صاحب نے اپنی تئیں عمدہ کوشیش کیں ۔جس میں وہ پوری طرح کامیاب بھی رہے ۔شاید انہی کے واسطے حضرت میر کیا خوب کہہ گئے تھے ۔
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں بہت یاد رہو
(میر )
پروفیسر اویس صاحب کی انہی خدمات کا اعتراف حکومت پنجاب نے بھی کیا تھا اور ان کو بیسٹ پرنسپل آف پنجاب کا ایوارڈ دیا گیا ۔سرٹیفکیٹ کی زیارت تو نصیب ہوئی تھی مگر نقد انعام کتنا ملا اس معاملے میں اویس صاحب خاصے شیخ واقع ہوئے ہیں کبھی ذکر ہی نہ کیا ۔
پروفیسر اویس صاحب خوش پوش انسان ہیں ۔ان کو اچھا پہننے کا شوق ہے ۔ان کا لباس ہمیشہ عمدہ اور بڑھیا ہوتا ہے ۔ان کی شخصیت میں وجاہت ہے ۔دراز قد ان کے شخصی رعب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے ۔گفتگو کا سلیقہ ہے ۔لوگوں سے کام لینا جانتے ہیں ۔ان کو بہترین منتظم اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ان کو حسن انتظام کا سلیقہ اور قرینہ ہے ۔یوں لگتا ہے کہ ان کو بنایا ہی انتظامی عہدوں کے لیے گیا ہے ۔پرنسپل شپ کا طویل تجربہ ان کی میراث ہے ۔سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔دوسروں کو عزت دیتے ہیں اور خود عزت کماتے ہیں ۔وہ دوستوں کو دھیمے لہجے میں جوڑنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ہلکی سی زبردستی والی مسکراہٹ سے یہ دوست دشمن سے یکساں سلوک کرتے چلے جاتے ہیں ۔ہر مزاج کے شخص سے کام لینا ان کا ہی فن ہے ۔
رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو
دوست دشمن سے ملتے ملاتے رہو ۔
جب کبھی اکیلے چل رہے ہوں تو غور سے دیکھا جائے تو بہت ہی ڈھیلے انداز میں قدم اٹھاتے ہیں ۔اس کی وجہ کی خبر نہیں غم دنیا ہے یا کوئی غم جاناں جو ان کو تنہائی میں کھوئے رہنے ہر مجبور کرتا ہے ۔
نجی زندگی میں فوجی ڈسلپن کے قائل ہیں ۔اپنی بیوی سے لڑائی کر گزرتے ہیں ۔اپنے گھر میں کوئی چیز ادھر ادھر ہو جائے تو سخت جملے بولتے ہیں ۔۔انہوں نے اپنے من کے راجپوت کو مرنے نہیں دیا کبھی کبھی اس کی انگڑائیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ایک دن کہنے لگے مجھے یقین ہے کہ میں اور گھمن صاحب بیوی سے کم ہی ڈرتے ہیں باقی دوستوں کے چہرے ہی بتا رہے ہیں کہ صورتحال کیا یے
پروفیسر اویس صاحب وسیع مشرب انسان ہیں ۔ان کا مطالعہ وسیع ہے ۔انہوں نے انتظامی پوسٹوں پر ہونے کے باوجود کتاب سے اپنا رشتہ جوڑا ہوا ہے ۔میری کتاب ” کچھ رنگ چرائے ہیں ” جب چھپی تو ان کو پیش کی ۔وہ ہر روز اس کا اک خاکہ پڑھ کر مجھے راہ گزرتے ہوئے داد سے نوازتے تھے ۔یہی ان کی علم دوستی ہے جس کی بنا پر ہم سب دوست ان کا احترام کرتے ہیں ۔انہوں نے سب دوستوں سے مساوی سلوک رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ان کے دور میں کسی بھی دوست کی عزت نفس مجروح نہیں کی گئی ۔ان کی وسیع الظرفی ہے کہ وہ اکثر معاملات کو صرف نظر کر دیتے ہیں ۔ان کے دفتر کے دروازے ہر وقت دوستوں کے لیے کھلے رہتے تھے ۔لوگ منصب ملنے پر بدل جاتے ہیں مگر سچ تو یہ کہ ان کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے ۔
شعبہ تاریخ کے ساتھ ان کی پریم کہانی تھی ۔وہ پروفیسر شہزاد گجر ۔آغا حیدر صاحب سے خصوصی محبت کرتے تھے ۔وہ پروفیسر شفیع صاحب کا پورے سٹاف سے ہٹ کر احترام کرتے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اویس صاحب نے منھاج یونیورسٹی سے ایم ۔فل کیا تھا ۔شفیع صاحب وہاں پڑھاتے تھے ۔شفیع صاحب عمر ۔عہدہ میں اویس صاحب سے چھوٹے تھے مگر وسعت قلبی اور خاندانی رکھ رکھا و دیکھیں کہ اویس صاحب نے ہمیشہ اسی وجہ شفیع صاحب کے ساتھ منفرد اور محبت والا سلوک رکھا ۔اسطرح کی مثال عہد رواں میں کم ہی ملے گی ۔ اویس صاحب نے منصب کو خدمت کے لیے استعمال کیا ۔یہ مشکل کام ہوتا ہے کہ عہدہ ملنے پر عجز و انکساری کو حرز جاں بنائے رکھنا ۔شاعر نے اسی خوبی کی عمدہ عکاسی کی ہے ۔
اپنی منزل پہ پہنچنا بھی کھڑے رہنا بھی
کتنا مشکل ہے بڑے ہو کے بڑے رہنا بھی
انہوں نے ہمیشہ ایک دو لیکچرز لازمی ٹائم ٹیبل میں رکھے ہوتے تھے ۔وہ لیکچر بھی باقاعدگی سے دیتے تھے ۔
شعبہ اردو کا کمرا تنگ و تاریک تھا ۔جس پر ہمارے ڈاکٹر جعفر نے ان سے گذارش کی تو انہوں نے بڑا شاندار کمرا شعبہ کو عطا کر دیا مگر جب کمرے کی تزئین و آرائش کی گئی تو ان کا بے لاگ تبصرہ نہیں بھلایا جا سکتا کہ یار یہ شعبہ کم کوٹھا زیادہ لگتا ہے ۔اس کمرے کو کوٹھا کہنے کی کرواہٹ کبھی کبھی ہم دوست اب بھی محسوس کرتے ہیں ۔شعبہ اردو پر اویس صاحب کی خصوصی شفقت رہتی ہے اس کو اوج کمال اس وقت عطا ہوا جب ہمارے سابقہ صدر نشین نے لائبریری میں جاکر ندیم عثمانی صاحب کو کہا کہ منٹو کے افسانے چھپا دو ۔ان کو پڑھ کے بچوں کے خیالات ترتیب میں نہ رہیں گے ۔بچوں کی سیرت و صورت دونوں بگڑ جائیں گی ۔جب اس بات کی خبر اویس صاحب کو ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور اکرم صاحب کی خوب آو بھگت فرمائی ۔موجودہ صدر نشین اکرام صاحب سے مطمئن ہیں کہ ان کا فکری دھارا ادبی اور علمی ہے ۔
عبد الاحد خاں صاحب کی چیف پراکٹر کی ڈیوٹی پر بھی جامع تبصرہ فرما تے ہوتے تھے .ان کے بعد اب ڈاکٹر رشید صاحب جیسا میٹھا پراکٹر ہے تو روای چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔عبد الاحد صاحب عارضہ جگر میں مبتلا ہوئے تو جس طرح کی شفقت اویس صاحب نے کی ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔احد خاں صاحب کے جگر کی تبدیلی تک ان کا حوصلہ اور بھرپور تعاون شامل حال رہا ہے ۔
اپنے کولیگز کے ساتھ ان کا انداز ہمیشہ ہی مشفقانہ رہا ہے جب میڈم میمونہ عمرہ کے لیے گئیں تو ہمارے ہیڈ جناب اکرم صاحب نے روایتی انداز میں ان کو جلی کٹی سنائیں تو اس وقت پروفیسر اویس صاحب نے مثالی معاملہ فہمی سے بات رفع دفع کروا دی تھی ۔
ان کی ایک عادت کبھی کبھی طبعیت پر گراں گزرتی تھی کہ وہ کالج میں اک خاص معاملے پر گہری نظر رکھتے تھے ۔اسی وجہ سے ہمارے شعبے کے اک دوست خاص طور پر چار سال زیر عتاب رہے ۔اس کا اظہار بھی کرتے کہ چھٹیوں میں طالبات کو بلانا کہاں کا انصاف ہے ۔
حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ ان کا جمالیاتی ذوق بھی بام عروج پر رہتا ہے ۔وہ ہمیشہ کالج کی مختلف تقاریب میں اپنے دوست مہمان بلاتے تھے ۔ان مہمانوں کی فہرست بھی ان کے ذوق جمیل کی عکاس ہوتی تھی ۔میری دانست میں اویس صاحب حسن کے معاملے میں نفیس ذوق رکھتے ہیں ۔
۔
ان ے سلجھے طور طریقوں کی وجہ سے
لاہور بھر کے پرنسپلز میں انہیں ایک خاص تکریم اور عزت حاصل رہی ہے۔
ان کی نفیس طبعیت پر یہ بات گراں گزرتی تھی کہ صفائی و ستھرائی کا مناسب انتظام نہ ہو ۔وہ نفاست پسند ہیں ۔
ان کی طبعیت پر کبھی کبھی کنجوسی کا بھی شدید غلبہ ہو جاتا تھا ۔کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ ہم کسی پروگرام کی بابت بات کرتے تو کفایت شعاری کا بھاشن جھاڑ کر چپ کروا دیتے ۔ہم آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کی دریا دلی پر مسکراتے رہتے تھے ۔کئی دفعہ ایسے واقعات بھی ہوئے جن سے لگا کہ وہ ہم سے شدید ناراض ہیں مگر انہوں نے اس کا بعد میں اظہار ہی نہ کیا ۔
ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر جعفر علی اور مظفر بلوچ صاحب کے اعزاز میں تقریب تحسین کا منصوبہ بنایا مگر اس میں اویس صاحب کو دعوت نہ دی گئی ۔جس پر وہ خاصے خفا بھی ہوئے مگر اتنے بڑے کالج میں ایک آدھ تقریب میں ان کی صدارت نہ بھی ہو تو میرا خیال ہے کام چلنے دینا چاہیے تھا۔ان کی خفگی شاید مناسب نہ تھی ۔
کالج کی تدریسی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے لائبریری کی کشادگی از حد ضروری تھی مگر وہ اویس صاحب کے عہد میں بوجوہ نا ہو سکی کچھ دن پہلے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے یار آپ لوگ پہلے توجہ دلاتے تو میں لائبریری کو ضرور وسیع کر دیتا مگر اب وقت کم ہے ۔ہم نے بند ڈسپنسری کی طرف توجہ دلائی تو فورا ڈاکٹر اللہ رحم کو بلا کر ڈسپنسری کو بحال کروا دیا ۔
ایسوسی ایشن کے معاملات کے حل کے لیے جب بھی پروفیسر ماجد صاحب ۔وقار سلطان کے ہمراہ ہم ان کے پاس گئے انہوں نے ہمیشہ مثالی عزت سے نوازا ۔کبھی بھی ہماری بات کو ٹالا نہیں ۔
ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔میرے تبصروں ۔جملوں ۔تحریروں پر جتنی داد انہوں نے دی ہے شاید اس دور میں کسی نے نہ دی ہو ۔میرے اندر پنجاب اور لاہور کی محبت پیدا کرنے میں ان کا بڑا کردار ہے ۔میری ان سے ان موضوعات پر بڑی نشستیں ہوئیں ۔وہ تاریخ کا گہر آ شعور رکھتے ہیں ۔انہوں نے کئی موضوعات پر میری فکری رہنمائی بھی کی ۔ان کی وجہ سے مجھے تاریخ کا گہرا شعور حاصل ہوا ۔ان فکری زوایہ ترقی پسند اور روشن خیالی کی طرف تھا مگر بعض معاملات میں وہ کامریڈوں کی سخت مخالفت کرتے تھے ۔ترقی پسند دانشور قائد اعظم اور سر سید کی تعریف نہیں کرتے جبکہ اویس صاحب ان دونوں کی خدمات کا برملا اعتراف کرتے تھے ۔انہوں نے قائد اعظم کی تصویر سے گرد جھاڑ کر اپنے دفتر میں بڑے اہتمام سے آویزاں کروایا تھا ۔
وہ لاہور کے عاشق ہیں ۔یہی وہ رمز ہے جو میری اور ان کی مشترک تھی ۔ہم کئی کئی گھنٹے لاہور کی تاریخ ،ثقافت اور کلچر پر باتیں کرتے رہتے تھے ۔
انہوں نے ہماری گذارش پر پنجاب اور لاہور شناسی کے موضوع پر یادگاری خطبات بھی دئیے ۔ خطبات میں انہوں نے تاریخ کے اوراق سے جس انداز میں عرق ریزی کے ساتھ پردہ اٹھایا وہ انہی کا خاصہ ہے ۔یہ خطبات شالیمار کالج کی علمی و ادبی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ان کو وقاص اکبر اور ڈاکٹر عنصر اظہر صاحب نے یادگاری خطبات دینے پر شاندار شیلڈ بھی پیش کی تھی ۔
ان کی چال ڈھال اور ادائے دل نواز کے لیے شاعر نے کہا ہو گا
انگلیاں رکھ کرمری آنکھوں پہ وہ چپ ہو گیا
جسم کی خوشبوسے لیکن ہاتھ پہچانے گئے
انہوں نے لاہور میں جب گھر بنایا تو کہنے لگے میری زندگی کی خواہش پوری تھی کہ میرا لاہور میں گھر ہو ۔
ان کی شخصیت کا ہر رنگ جدا ہے ۔ان کی کمی کالج کے درودیوار بھی محسوس کریں گے ۔ان کی معاملہ فہمی کی گواہی ہر کوئی دئے گا ۔ان کی کمی پوری نہیں ہو سکے گی ۔انہوں نے شالیمار کالج کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا ہے ۔ان کے دور میں کالج نے بے مثال ترقی کی ہے ۔انہوں نے کالج کے ہر شعبے کو عروج کی جانب گامزن کیا ہے ۔ان کے دور میں شالیمار کالج کی منفرد پہچان بنی ہے ۔ان کے دور میں اساتذہ اور طلباء سب ان کی سیادت اور قیادت کی صلاحیتوں کے معترف رہے ہیں ۔کمی کجی ہر شخص میں ہوتی ہے مگر اویس صاحب کی خوبیوں کا دفتر دراز ہی رہا ہے ۔ان کی شخصیت اس شعر کی مصداق لگتی ہے ۔
ہم رنگوں سے کھیلنے والے ہم پھولوں کے باسی لوگ
ہم سانسوں میں رکھتے ہیں خوشبو بانٹنے والی موج
پروفیسر اویس صاحب بہترین استاد ہیں ۔وہ کلاس طلباء کو تاریخ پڑھاتے ہوئے کسی بھی رو رعایت کے قائل نہیں ہیں ۔وہ بے رحم اور غیر جانبدار مورخ بن تاریخ کے متعلق رائے رائے دیتے ہیں ۔چینوٹ کالج میں جب وہ پڑھاتے تھے تو انہوں نے دوران کلاس اک طالب علم کے سوال پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت بارے اور انتظام و انصرام بارے کھری رائے دئے دی ۔اس دن رات کو کالج کے درودیوار پر لکھ دیا گیا کہ شعیہ پروفیسر کو برطرف کرو ۔پرنسپل کی معاملہ فہمی کی وجہ سے حالات خراب نہ ہوئے ۔مولانا صاحبان نے جب چینوٹ میں ان کے آبائی گاوں پنڈی بھٹیاں سے تصدیق کی تو تب جا کر جان چھٹی ۔یہی معاشرتی گھٹن ہے جس نے ہمارے سماج کو جکڑ رکھا ہے ۔ملاں ہر سو جنت تقسیم کرتا پھرتا ہے ۔اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔
پروفیسر اویس صاحب پنجاب کے کلچر سے بھی جان توڑ محبت کرتے ہیں ۔ان کے سامنے پنجاب کی ثقافت کا ذکر کریں تو ان دل امڈ آتا ہے اور اپنی یادوں کو بیان کر نا شروع کر دیتے ہیں ۔وہ پنجاب کا حقیقی ہیرو رنجیت سنگھ کو قرار دیتے ہیں ۔میں جب اپنی والد ہ کے ساتھ کرتا ر پور گیا تو اماں نے بابا گورنانک کی یادگار پر ہاتھ اٹھا کر دعا کر دی میں نے کہا اماں یہ مسلمان نہیں تھا تو دعا کیسی انہوں نے کہا کہ پتر بزرگ سب دے سانجھے ہوندے نے ۔یہ واقعہ جب میں نے لکھا تو اس پر اویس صاحب کا تبصرہ کہ ماں جی کو سلام ہے ان کی وسیع الظرفی کمال ہے ۔مجھے ایسی خوشی دئے گیا جو ناقابل بیاں ہے ۔
راوین ہونے کی وجہ سے وہ گورنمنٹ کالج لاہور کا بھی اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں ۔لاہور کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس شہر میں آج بھی داتا علی ہجویری کی ذات اور تعلیمات کا اثر ہے ۔
پروفیسر اویس صاحب کے والدین
نے ہندوستان سے ہجرت کی تھی ۔وہ ہجرت کی تلخیوں کی یاد کر کے آج بھی رنجیدہ ہو جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میری والدہ وقت آخر شیخ زاید ہسپتال میں ایڈمٹ تھیں ۔ان کو ہوش بھی نہیں تھی مگر جب آنکھ کھلتی تو کہتیں کہ یہ ریل گاڑی کی آواز کہاں سے آ رہی ہے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نو سال کی عمر میں ریل گاڑی کی چھٹ پر بیٹھ کر ہجرت کی تھی ۔
پروفیسر اویس صاحب اپنی سروس مکمل کر کے الوداع ہو رہے ہیں مگر ان کی یادیں ۔باتیں اور ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔شالیمار کالج کی تاریخ میں ان کو بہترین پرنسپل کے طور پر یاد رکھا جائے گا ۔انہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے اساتذہ اور طلباء کے دلوں میں گھر بنایا تھا ۔مجھے اکثر کہتے کہ تم لکھتے اچھا ہو مگر کئی دفعہ حقائق مسخ کر دیتے ہو ۔بہترین منتظم ،شاندار انسان ،روشن خیال،ترقی پسند ،متوازن طبع کا مالک ۔پرنسپل کو انشاء اللہ خان کے ان اشعار کے ساتھ وداع کرتے ہیں ۔
لو فقیروں کی دعا ہر طرح آباد رہو
خود رہو موجیں کرو تازے رہو شاد رہو
چمن امن و اماں کے تمہیں ہو سیر نصیب
سائیں اللہ سدا بر سر ارشاد رہو
عیش و عشرت کرو ہر وقت تم انشاء اللہ
حسن چمکائے پھرو سب میں پری زاد رہو
نعیم گھمن