سن دو ہزار دس میں پنجاب کے چھبیس بڑے کالجوں کو خود مختاری کا درجہ دے دیا ان کالجوں کو بورڈ آف گورنرز چلائیں گے اراکین کا تقرر بھی ہو گیا فنانس ڈیپارٹمنٹ نے ان کے اکاؤنٹس کو باقی کالجوں کے اکاؤنٹ کو باقی کالجوں کے اکاؤنٹ سے الگ کر دیا گیا اور ان کو سالانہ گرانٹ دی جانے لگی جس سے اپنے اخراجات چلائیں گے کم پڑنے کی صورت میں فیسیں بڑھائیں گے یا ڈونیشن لیں گے تنخوائیں پرنسپلز کے ذریعے تقسیم ہوں گی اس مقصد کے لیے وہ بینک میں ایس ڈی اے اکاؤنٹ کھولیں گے دو ہزار گیارہ ستمبر میں تنخواہوں بذریعہ پرنسپل تقسیم ہوئیں ٹو تو اس وقت کی زاہد شیخ کی قیادت نے احتجاج کیا ہائی کورٹ نے سووموٹو لیا اور فیصلہ میں کہا کہ اس طرح کے بی او جی کی بجائے کوئی اور مضبوط انتظامی ڈھانچہ تشکیل دے وہ ایک مرتبہ موخر ہوا تو آجتک بات مشوروں میں ہے حکومت نے تنخواہیں بذریعہ اے جی آفیس تقسیم کروانے کا زبانی بندوبست کروا دیا مگر ان کالجز کا فنانس میں کھاتا الگ ہی رہا اور چلتا ا رہا ہے اب اسی اکاؤنٹ کو جب آسان اسانمنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کیا تو تنخواہوں کی تقسیم کا بکھیڑا ایک مرتبہ پھر کھڑا ہو گیا ہے اب دوبارہ عارضی طور پر تنخواہوں کی تقسیم کا مسلہ بذریعہ اکاؤنٹ کا فیصلہ تو ہو گیا ہے مگر فنانس ڈیپارٹمنٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ یا تو وہ خود مختاری کا دو ہزار گیارہ کا فیصلہ واپس لیں یا پھر اسے درست طور پر چلائیں معاملہ اب محکمہ ہائر ایجوکیشن کی کورٹ میں ہے
previous post