اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز، بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے لیے وفاقی دارالحکومت کے چار سیکٹرز میں پلاٹس الاٹ کرنے کی اسکیم کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ریاست کی زمین اشرافیہ کے لیے نہیں، صرف عوامی مفاد کے لیے ہے، چند ججز، بیوروکریٹس اور مخصوص گروپس کو مارکیٹ سے کم قیمت پر پلاٹس کی الاٹمنٹ سے خزانے کو تقریباً ایک کھرب روپے کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے 264 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا کہ اسلام آباد کے سیکٹرز ایف12، جی 12، ایف 14اور ایف 15 کی ہاؤسنگ اسکیمز غیر آئینی، غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف ہیں، سیکٹر ایف 14 اور 15 کی قرعہ اندازی میں شفافیت بھی نہیں تھی، پبلک آفس ہولڈرز عوام کی فلاح و بہبود کے خلاف اپنے لیے مفاد حاصل نہیں کر سکتے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے وفاقی حکومت کے ملازمین یا ججز کا فرض ہے کہ وہ حقیقی اسٹیک ہولڈرز عوام کی خدمت کریں، ہاؤسنگ اسکیم اور اس پر نظر ثانی شدہ پالیسی مفاد عامہ کے خلاف ہے، لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا، کابینہ میں پیش کیے گئے ریکارڈ میں نہیں بتایا گیا الاٹمنٹس کے لیے سلیکشن کا طریقہ کار کیا تھا؟ وفاقی کابینہ نے مفادات کے ٹکراؤ کو نظر انداز کردیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حیران کن طور پر پلاٹس کے بینیفشریز میں اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ اور ریٹائرڈ ججز شامل ہیں، کمسن گھریلو ملازمہ تشدد کیس میں سزا یافتہ، رشوت وصولی کا اعتراف کرنے اور انضباطی کارروائی پر برطرف ججز بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل تھے ۔
فیصلے میں کہا گیا ہے اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ نے کبھی پلاٹس پالیسی میں شمولیت کی درخواست نہیں دی، مگر ایسی کوئی وضاحت نہیں دی گئی کہ انہیں پالیسی میں کیوں شامل کیا گیا؟
عدالت نے سیکریٹری ہاؤسنگ کو 2 ہفتوں میں فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ مفاد عامہ کے تحت پالیسی بنائیں گے۔