فپواسا پنجاب چیپٹر کا کا ایچ ای سی کے بجٹ میں اضافے اور اسپیشل الاؤنس تمام اساتذہ کو دینے کا مطالبہ۔
فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے عہدے داران نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس سے محتلف عہدےداران نے سرکاری یونیورسٹیوں اور ان میں پڑھائے والے استاتذہ کی مشکلات پر اظہار کیا اور بجٹ میں ان کے تدارک کے لیے فیڈریشن کے مطالبات اعلی حکام تک پہنچانے
ہ پنجاب کی مختلف یونیورسٹیز کی اے ایس اے کے نمائندگان نے حکومت سے آئندہ بجٹ میں ایچ ای سی کی گرانٹ میں خاطر خواہ اضافے،پچیس فیصد سپیشل الاؤنس کا دائرہ کار تمام اساتذہ تک بڑھانے اور یونیورسٹی اساتذہ کو ٹیکس میں 75 فیصد تک چھوٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جی سی یونیورسٹی، لاہور میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں صوبائی صدر فپواسا ڈاکٹر عبدالستار ملک کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے اعلی تعلیم کے شعبے کو نہایت بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ پچھلے چار سالوں میں وفاقی حکومت کے بجٹ کے حجم میں 30 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اس کا حجم 51 سو ارب سے بڑھ کر تہتر سو ارب تک پہنچ گیا ہے، لیکن بدقسمتی سے اِس دوران اعلی تعلیمی اداروں کے اخراجاتِ جاریہ کے لئے بجٹ کو تقریباً چونسٹھ ارب کی سطح پر منجمد کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیز شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور بہت سی جامعات میں اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ پچھلے چند برسوں میں سرکاری اور نیم سرکاری اعلی تعلیمی اداروں کی تعداد 100 سے بڑھ کر 140 اور ان کے سب کیمپسز کی تعداد بھی سو سے تجاوز کر گئی ہے، جس کے بعد اُن کے اخراجات پورے کرنا ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مزید برآں یہ کہ حکومت نے یونیورسٹیز میں ریسرچ کلچر کو فروغ دینے کی بجائے پچھلے چار سالوں میں تحقیق اور ریسرچ فنڈز کی مزید تخفیف کردی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اِس تمام صورتحال کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ یونیورسٹیز کو اپنی آمدنی بڑھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا اہم ذریعہ طلباء کی فیسوں میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے. اِس دگرگوں صورت حال کی وجہ سےغریب اور متوسط طبقہ کے قابل طلبہ پر اعلی تعلیم کے دروازے بند ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
فپواسا پنجاب کے عہدہ داران نے مطالبہ کیا کہ اعلی تعلیمی اداروں کے اخراجاتِ جاریہ کے لیے آئندہ بجٹ میں کم از کم 100 ارب روپیہ اور ریسرچ اور ڈویلپمینٹ کی مد میں کم از کم 50 ارب روپیہ مختص کیا جائے۔
فپواسا عہدہ داران نے یونیورسٹی اساتذہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی بھرپور مذمت کی اور صوبائی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر احتشام علی نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی محکموں میں تعینات گریڈ بیس اور اکیس کے ملازمین سو فیصد اسپیشل الاؤنس لے رہے ہیں اِسی لیےانھیں 25 فیصد الاونس ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،لیکن یونیورسٹیوں اور کالجز میں تعینات گریڈ 20 اور 21 کے اساتذہ کو اسپیشل الاؤنس کی لسٹ سے باہر کردینا سراسر زیادتی ہے۔ لہذا فپواسا پنجاب یہ مطالبہ کرتی ہے کہ کہ گریڈ 20 اور 21 کے تمام اساتذہ کو بھی گریڈ ایک سے گریڈ انیس کی طرح پچیس فی صد اسپیشل الاؤنس دیا جائے۔
ڈاکٹر عبدالستار ملک نے اِس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اعلی تعلیمی اداروں کی خودمختاری پر آئے دن نت نئے طریقوں سے حملے کیے جا رہے ہیں کبھی یونیفارم یونیورسٹیز ایکٹ کے نام پر بیوروکریسی کو یونیورسٹیوں کے اندر گھسانے کی سازش کی جارہی ہے تو کبھی ایچ ای سی کی خودمختاری پر حملہ ہورہا ہے نتیجتاً یونیورسٹیز، وفاقی ایچ ای سی، صوبائی ایچ ای سی اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے درمیان گھن چکر بن کر رہ گئی ہیں۔
فپواسا عہدہ داران اور مختلف یونیورسٹیز کی اے ایس اے کے نمائندگان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پنجاب میں سن 2000 کے بعد بننے والی یونیورسٹیز کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور تمام یونیورسٹیوں کی آئینی باڈیز میں اساتذہ کی نمائندگی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کر کے مذکورہ یونیورسٹیز میں بیوروکریسی کی مداخلت کو بالکل ختم کیا جائے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ بی پی ایس سکیل پر موجود یونیورسٹی اساتذہ ہر نئے سکیل میں جانے کے لیے نئے سرے سے درخواست دیتے ہیں لہذا فپواسا پنجاب یہ مطالبہ کرتی ہے کہ بی پی ایس اساتذہ کے لیے ٹی ٹی ایس اساتذہ کی طرح ٹائم سکیل پروموشن کے حوالے سے فوری قانون سازی کی جائے۔اور اس ضمن میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے چانسلر آفس کو منظوری کے لئے بھیجے جانے والے قوانین کو پاس کر کے اس کو صوبہ پنجاب کی دیگر یونیورسٹیوں میں بھی لاگو کیا جائے.
فپواسا عہدہ داران نے یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کی تقرریوں کے لیے 31 مارچ سے لاگو ہونے والی پوسٹ پی ایچ ڈی تجربے کی شرط پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اِس ضمن میں اُن ورکنگ پیپرز کا حوالہ دیا جو مختلف یونیورسٹیز میں پوسٹ پی ایچ ڈی تجربے کی شرط کے ضمن میں مرتب کیے گئے تھے، مگر ایچ ای سی نے ان ورکنگ پیپرز کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوسٹ پی ایچ ڈی تجربے کی شرط کا اطلاق کر دیا جس سے ہزاروں یونیورسٹی اساتذہ کی تقرریوں کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ صوبائی صدر نے مطالبہ کیا کہ اگر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسرز کی تقرریوں کے لیے پوسٹ پی ایچ ڈی تجربے کی شرط کو کالعدم قرار نہ دیا گیا تو پنجاب بھر کے یونیورسٹی اساتذہ سراپا احتجاج ہوں گے۔
اِس موقع پر سیکرٹری اے ایس اے پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر امجد عباس خان مگسی نے فپواسا پنجاب کی تائید سے یہ مطالبہ کیا کہ گورنر پنجاب نے اینٹی ڈیٹ تعیناتی کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی اساتذہ کا موقف سنے بغیر جو فیصلہ کیا ہے اُسے فی الفور واپس لیا جائے اور پچھلے سال جون میں انھوں نے فپواسا پنجاب کے عہدیداران سے ملاقات میں جو وعدہ کیا تھا اسے پیش نظر رکھتے ہوئے اِس فیصلے کو فی الفور واپس لیا جائے۔ یاد رہے کہ گورنر صاحب نے اِس مسئلے پر پنجاب یونیورسٹی کو سینٹ کے ذریعے جو قانون سازی بھجوانے کا کہا تھا، ایک برس گزر جانے کے بعد بھی اُس فائل پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، جس سے پنجاب یونیورسٹی کی ٹیچنگ فیکلٹی شدید قسم کے ذہنی اضطراب سے دوچار ہے۔ اِس تمام صورتِ حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے صوبائی صدر فپواسا ڈاکٹر عبدالستار ملک نے تنبیہ کی اگر گورنر ہاوس کی جانب سے اِس مسئلے کو حل نہ کیا گیا تو یونیورسٹیاں سیاست کا گڑھ بن جائیں گی اور اساتذہ کو احتجاج کا راستہ اختیار کرنے سے کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔
آخر میں صوبائی صدر فپواسا ڈاکٹر عبدالستار ملک اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر احتشام علی نے کامیاب پریس کانفرنس کے انعقاد پر شریک ہونے والے تمام صحافیوں ، پنجاب بھر کی مختلف یونیورسٹیوں سے آئے ہوئے اساتذہ اور اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن جی سی یونیورسٹی لاہور کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر احتشام علی جنرل سیکرٹری فپواسا پنجاب