Editorial Latest News

تعلیم:پی ٹی آئی کے منصوبے کا انکشاف

تحریر:پرویز ہود بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ:ظفرعلی خان

اے پاکستان تیار ہوجا کہ عمران خان کی حکومت اس ملک کے تعلیمی نظام کو نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہے ۔وہ بھی ایسے انداز میں کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔جو یکساں قومی نصاب سنگل نیشنل کریکولم کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہاں نظاماتی تبدیلیوں کو چھپاتا ہے جو ان سے بھی گہری ہیں جو جنرل ضیاءالحق کے انتہاپسند رجیم نے سوچی تھی۔ان کا اطلاق 2021 سے ہوگا۔
پہلی نظر میں یکساں قومی تعلیمی نصاب بڑا دلکش نظر آتا ہے۔کچھ لوگ اسے قابل نفرت تعلیمی نظام میں نسلی علیحدگی پر ایک کاری ضرب کے طور پر دیکھتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ پہلے دن سے ہے۔ایک سال میں ایک وسیع خلیج نے اعلی پرائیویٹ تعلیم سے مستفید ہونے والوں کو برے پبلک سکولوں میں پڑھنے والوں سے علیحدہ کر دیا ہے۔اس لیے اس سے کیا بہتر ہوسکتا تھا کہ امیر اور غریب بچے وہی مضامین انہی کتابوں سے پڑھیں اور ان کے امتحانات ایک ہی معیار کے مطابق ہوں؟
لیکن یہ اخلاقی طور پر پرکشش خیال کو خراب اور توڑ دیا گیا ہے اور اس کی شکل بگاڑ دی گئی ہے۔اور یہ ان لوگوں نے کیا ہے جو پاکستان کا مستقبل اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے ہیں اور جو اپنے حاکم کی طرح مدرسوں کی انتظامیہ سے سازباز کرتے ہیں۔وزیر اعظم خان پر 17- 2016 میں مرحوم مولانا سمیع الحق کی مدارس کو جو کہ اس کے اپنے اعتراف کے مطابق وہ طالبان کا باپ ہے،بڑی بھاری رقم دینے پر بڑی شدید تنقید ہوئی تھی۔ سمیع الحق اپنے ہم کار کے ہاتھوں پراسرار حالات میں قتل ہوا تھا۔
ابھی صرف واحد قومی نصاب کے منصوبے چوتھی کلاس بارے نشر ہوئے ہیں۔لیکن بڑی مقدار میں مذہبی مواد جو ان میں شامل ہے پاکستان کی تاریخ میں تمام پہلے نصابوں کو مات کرتا ہے۔دو بڑے مدرسہ نظاموں تنظیم المدارس اور رابطۃ المدارس کے نصابوں کے متنوں سے موازنے سے ایک پریشان کن حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ عام سکول زیادہ رٹا لگانے والا مواد مدرسوں سے بھی زیادہ نصاب میں رکھیں گے۔اور چونکہ عام سکول اساتذہ مذہبی مواد پر پوری طرح حاوی نہ ہوں گے اس لیے یکساں قومی نصاب مدرسوں کے فارغ التحصیل مقدس لوگوں کی ایک فوج طلب کرے گا۔حافظ اور قاری صاحبان تنخواہ دار سکول اساتذہ کے طور پر ۔یہ آپ کے ماحول پر کیا اثرات ڈالے گا؟اور کیا طلباء محفوظ رہیں گے؟ یہ ایک کھلا سوال ہے۔
یکساں قومی نصاب بارے پر زور اصرار کا خیال تین غلط مفروضوں پر مبنی ہے۔
پہلا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں معیار کا فرق مختلف نصابات کی بنا پر ہے۔کوئی بھی مضمون پڑھاتے ہوئے جیسے جغرافیہ، سماجیات اور سائنس تمام دھاروں کو وہی موضوعات پڑھانے ہوتے ہیں۔جبکہ تفصیلات اور خاص حصول پر زور ظاہر ہے فرق ہوتے ہیں۔ہر ایک کو سات براعظموں اور پانی کےایچ ٹو او ہونے بارے پڑھانا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ سیکھنے میں فرق پڑتا ہے کیونکہ طلباء مختلف پڑھانے کے طریقوں سے دوچار ہوتے ہیں اور ان کی پرکھ بالکل مختلف معیارات سے ہوتی ہے۔مثلاً ایک مقامی تعلیمی بورڈ ایک ریاضی کے طالب علم سے لوگرتھم کے ایجاد کرنے والے کا نام پوچھے گا جبکہ ایک اولیول کے طالب علم کو حقیقی طور پر لوگرتھم کوئی مسئلہ حل کرنے کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔جدید دنیا طلباء سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ایک سوال میں سے عقلی طور پر راستہ نکالیں نہ کہ حقیقتوں کو طوطے کی طرح رٹ لیں۔
دوسرے یہ غلط ہے کہ پارسائی کی ایک بڑی خوراک کسی طرح ایچی سن کالج کے طلبا اور آپ کے پڑوس کے روایتی سکول کے طلباء کو کسی طرح برابر کردے گی۔روایتی محمود اور ایاز قصے میں ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہوں اور یوں ان میں برابری نظر آئے لیکن ان کے آقا اور غلام کے رشتے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح سے امیر اور غریب سکول علیحدہ دنیا میں رہیں گے جب تک کہ وہ سکولوں کے بنیادی ڈھانچے، اچھے تربیت یافتہ اساتذہ، اعلی درجے کی نصابی کتابوں اور انٹرنیٹ کی سہولت سے مستفید نہ ہوں۔ضروری ذرائع کس طرح فراہم کیے جائیں گے کسی کو پتا نہیں۔پی ٹی آئی حکومت کے تحت صرف دفاع کے شعبے کے لیے کمی کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔
تیسرے یہ غلط ہے کہ وہ سکول نظام جدید دنیا سے متعلق ہیں انہیں اسی سطح پر لایا جا سکتا ہے جس پر مدرسے ہیں۔جدید تعلیم تنقیدی سوچ پر انحصار کرتی ہے اور اس کی کامیابی یا ناکامی مسائل حل کرنے اور دنیاوی معلومات پر مبنی ہے۔مدرسہ تعلیم کے مقاصد اہم لیکن مختلف ہیں۔وہ مذہبی شعائر کا پابند طالبعلم اور موت کے بعد اچھی زندگی دیکھتے ہیں۔قابل فہم بات ہے تنقیدی سوچ ناپسندیدہ ہے۔
اب کچھ مدرسوں نے دنیاوی مضمون بھی پڑھانے شروع کر دیے ہیں جیسے انگریزی،سائنس اور کمپیوٹر، یہ بہت زیادہ دباؤ کی وجہ سے ہوا ہے۔نائن الیون کے فوری بعد مدرسوں کو دہشت گردی کی آماجگاہ سمجھا جانے لگا تھا۔مشرف کی حکومت، جیسا کہ وہ امریکہ کی مرہون منت تھی اس نے حکم دیا کہ وہ دنیاوی مضامین پڑھائیں۔بہت سوں نے اس خیال کو سرے سے رد کر دیا۔لیکن کچھ دوسروں کو کامیابی سے ترغیب دی گئی۔الغرض مدرسے دنیاوی اور مذہبی مضامین ایک ہی طرح پڑھاتے ہیں۔عقلی استدلال کم ہے تحقیق میں تحکمیت کا غلبہ ہے۔
جبکہ چوتھی جماعت کے لیے یکساں قومی نصاب کی تجویز بنیادی مضامین پر بھی بحث کرتی ہے لیکن اس کا زیادہ حصہ انگریزی،معلومات عامہ(جنرل نالج)،جنرل سائنس،ریاضی اور سماجیات پڑھانے کے حوالے سے بے مقصد پھوہڑپن کا مظاہرہ ہے۔ان کے ساتھ قابل عمل منصوبہ کا ذکر نہیں ہے کہ کس طرح ضروری ذہنی یا مادی ذرائع مہیا کیے جائیں گے اور منصوبے عملی شکل اختیار کریں گے۔
ابھی بڑی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔پنجاب حکومت نے قرآن مجید کا درس کالج اور یونیورسٹی سطح پر لازمی قرار دے دیا ہے۔مطلوبہ امتحان پاس کرنے کے بغیر کوئی طالبعلم بی اے، بی ایس سی، بی ای، ایم ای، ایم اے، ایم ایس سی،ایم فل، پی ایچ ڈی یا میڈیکل ڈگری حاصل نہیں کرسکے گا۔ضیاء حکومت بھی ایسی تمامی شرائط نہیں رکھتی تھی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں یونیورسٹی میں پڑھانے کی ملازمت حاصل کرنے کے لیے آپ کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی تمام بیویوں کے نام بتانے پڑھتے تھے اور کچھ مذہبی مواد کے حصے جیسے دعائے قنوت سنانے پڑتے تھے۔لیکن پھر بھی طلبا اس کے بغیر ڈگری لے سکتے تھے۔ یہ امکان اب ختم ہو گیا ہے۔ایران،ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اپنے ہم پلہ طلباء سے پاکستانی طلباء مقابلتاً بہت کمتر ہیں۔بین الاقوامی سائنس اور ریاضی کے مقابلوں میں جو بہتر کارکردگی دکھاتے بھی ہیں وہ اشرافیائی اے لیول اور او لیول تعلیمی دھاروں سے آئے ہوتے ہیں۔زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ زیادہ طلباء اپنا ما فی الضمیر مربوط طریقے سے گرامر کے مطابق کسی بھی زبان میں چاہے اردو ہو یا انگریزی بیان نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کتابیں پڑھنا بند کر دیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک پی ٹی آئی کا نیا تعلیمی پروگرام اس بات پر خاموش ہے کہ وہ کس طرح مہارتوں میں پڑا وسیع فاصلہ کم کرے گا۔تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں کی کیفیت و معیار اتنا پست ہے کہ پرائیویٹ اداروں کے گریجوایٹس کو پھر سے تربیت دینی پڑتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی صنعتی ترقی پست ہے اور تمام سرکاری اداروں میں بھی یہی حال ہے۔مثلا پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز تو ڈھیر ہوگئی ہیں۔پاکستان کا خلائی پروگرام بھی ناکام ہوگیا ہے لیکن ایران نے حال ہی میں اپنا ایک فوجی سیٹلائٹ مدار میں بھیجا ہے اور ہندوستان مریخ پر رسائی کے راستے پر گامزن ہے۔
اٹھارویں ترمیم سے اختیار حاصل کرکے پاکستان کے صوبوں کو بڑی تندہی سے اس رجعتی منصوبے کی مزاحمت کرنی چاہیے جو قوم پر لاگو کیا جا رہا ہے ایسے نظریہ کاروں کی طرف سے جنہوں نے اسلام آباد میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ورنہ پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک مضحکہ خیز رکن بن کے رہ جائے گا۔عرب ممالک سے بھی پیچھے۔پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت اور اس کی سب سے بڑی واحد ناکامی ہے اس کی اپنے شہریوں کو زندگی کی ضروری مہارتیں نہ سکھا سکنا۔آگے بڑھنے کے لیے اولیت ہونی چاہیے کہ تعلیم دیں نہ کہ سیاسی نمبر بنائیں۔

Related posts

پنجاب یونیورسٹی کا یو ٹرن ۔چند روز قبل کیا گیا سمسٹر سسٹم کا فیصلہ واپس ۔اینول سمسٹر ہی رہے گا

Ittehad

حسن ابدال  کا واقعہ قابل مذمت ہےضلعی انتظامیہ کالجوں کے انتظامی انتظامات  میں مداخلت سے اجتناب کرئے ۔۔اتحاد اساتذہ

Ittehad

ٹرمپ انتظامیہ کے غیر ملکی طالب علموں کو امریک سے نکالنے کا فیصلہ چیلنج

Ittehad

2 comments

Arslan August 8, 2020 at 1:12 am

Totally biased and hilarious opinion……… It is better to shut ur mouth to speak impartiality.

Reply
صاحبزادہ احمد ندیم August 8, 2020 at 6:23 am

ہود بھائی کا مضمون دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی غکط مفروضوں اور غیر تحقیقی مواد پر بھی مشتمل ہے چند ایک نکات ملاحظہ فرمائیے
اول: مدرسہ نظاموں کے بارے ہود بھائی کی معلومات سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہیں مثال کے طور پر وہ دو مدرسہ نظاموں کے بارے میں نام لیتے ہوئے ایک نام فرضی طور پر لیتے ہیں دو بڑے نظام تنظیم المدارس اور وفاق المدارس ہیں جب کہ تیسرا نظام وفاق المدارس شیعہ ہےرابطة المدرس مدرسه نظام نہیں بلکہ تعلیمی بورڈ ہے جو یہ دعوی کرتا ہے وہ غیر مسلکی بنیادو ں پر صرف امتحان منعقد کرتا ہے

دوم ہود بھائی کے علم میں نہیں کہ مدارس میں انگریزی معاشرتی علوم جیسے معاشیات و سیاسیات وغیرہ پڑھانے کا سلسلہ 80 کی دہائی سے جاری ہے ضیاء الحق دور میں ان مضامین کی ترویج میں اضافہ ہوا مشرف دور صرف سرکاری سرپرستی کمپیوٹر کی فراہمی سے مدارس اور سوشل میڈیا کا رابطہ بہتر ہوا
سوم یہ کہ ہمارا امتحانی نظام بجا طور پر فرسودہ ہے لیکن اس میں ریاضی کے پرچے میں لوگرتھم ایجاد کرنے والے کا نام پوچھنا مضحکہ خیز حد تک غلط ہے ریاضی کے پرچے میں ریاضی کے سوال ہی پوچھے جاتے ہیں

یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں مدرسہ تعلیم ہو یا سکول کی تعلیم تنقیدی سوچ سکھانے کی طرف توجہ نہیں لیکن مدرسوں کے بارے یہ کسی حد غلط فہمی ہے کہ وہاں صرف آخرت کی تیاری کا نصاب دینی علوم کا ایک موضوع مقاصد شریعت بھی ہیں جو پانچ ہیں

جنھیں مقاصد خمسہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔

یہ درج ذیل ہیں:(۱)دین کی حفاظت (۲)انسانی جان

کی حفاظت (۳) انسانی عقل کی حفاظت (۴)انسان

نسل کی حفاظت (۵)انسان کے مال کی حفاظت

یہ بات اپنی جگہ اہم مجموعی فکری زوال کی وجہ سے مقاصد شریعت کا فہم اور ابلاغ کم ہو گیا ہے اور ضیاء الحق کے زمانے سے دینی تعلیم کا مزاج فرقہ وارانہ ہو گیا ہے

البتہ نصاب میں قرآن پاک کے ترجمے سے اس قدرخوف شاید اتنا مناسب نہ ہو
اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ نصاب تعلیم کے یکساں کرنے مسائل حل نہیں ہوں گے جب تک وسائل کی مناسب اور منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی

Reply

Leave a Comment