سمجھ میں نہیں آتا کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کا ڈیٹا پول کرنے والا عملہ نااہل ہے سافٹ وئیر غلط ہے یا کوئی اور وجہ ۔دو ہزار سولہ میں ایم آئی ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) لایا گیا ناکامیاب رہا بعد ازاں ایچ ار ایم ایس( ہیومن ریسورس مینجمنٹ سسٹم)لایا گیا اب اس مرتبہ تیسرا تجربہ کیا گیا اس کانام ایچ ای ڈی موبائیل ایپ رکھا گیا اس میں ڈیٹا فیڈ کرنے کے جوکل ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پرنسپلز کو ایک میل موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی جانب سے غلط رپورٹ کی گئی ہیں یا پرنسپلز کو بھجوانا نہیں آتی انفارمیشن فراہم کی گئی ہے لہذا تیرہ سے سترہ اگست تک دوبارہ انفارمیشن فراہم کی جائے گزشتہ دنوں سکولز ایجوکیشن کے منسٹر مراد راس نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے چار لاکھ سے زائد ملازمین کا ڈیٹا اکٹھا کر کےکامیائی سے فیڈ کر دیا ہے اور اس کے ذریعے اساتذہ اور دیگر ملازمین کے تمام امور اس کے ذریعے با آسانی نمٹائے جا رہے ہیں سکول ملازمین کی تعداد ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین سے دس گنا ہے اگر کوئی بات انہیں سمجھ نہیں آرہی تو ان کے تجربے سے سیکھا جا سکتا ہے بظاہر انفارمیشن جو مانگی گئی ہیں بہت سادہ ہیں نام ،ولدیت ،ایڈریس ۔شادی شدہ /غیر شادی شدہ۔تاریخ شروعات ملازمت اور موجودہ تعیناتی کا کالج اور شناختی کارڈ و ای میل دیکھا جائے تو ان میں سے کوئی بھی جلدی تبدیل نہیں سوائے کالج کی تبدیلی کے ۔ویسے یہ سیکریٹریٹ سے ڈائریکٹوریٹ تک سب واقف ہوتے ہیں کہ ٹرانسفر کس کی ہوئی اور کہاں ہوئی جوائن کیا یا نہیں ڈائریکٹوریٹ اور ڈی پی افیس میں مختلف برانچیں آپس مربوط نہیں پرموشنز کا وقت آتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوتے ہیں فلاں کہاں ہے اس نے سلیکشن کے بعد جوائن بھی کیا تھا یا نہیں ڈائریکٹ سلیکشن کے بعد بھی اس کا نام گزشتہ لسٹ میں کیوں موجود ہے فوت ہو گیا سنیارٹی لسٹ میں زندہ ہے چھٹی پر گیا کبھی واپس نہیں آیا کسی کو پتہ نہیں یہ وہ سوالات ہیں جن کی بنا پر یہ مرلی محکمہ بنا ہے اوپر سے لیکر نیچے تک کوئی ذمہ دار نہیں ہمارے خیال میں ہر ڈائریکٹوریٹ کو یہ اسانمنٹ دی جائے اور انہیں اور ڈی پی آئی آفیس کو زمہ دار بنایا جائے