عوامی نمائندے کیسے بیوروکریسی کے ہتھے چڑھ کر عوام ہی کے مفادات کے منافی کام کر رہے ہیں اس کی تازہ ترین مثال ڈسکہ کے گورنمنٹ کالج میں پنجاب یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کرنے کی کاوش ہے ایم این اے سیدہ نوشین افتحار نے پرائم منسٹر پاکستان سے ملاقات کر کے اس یونیورسٹی کے قیام کا اجازت نامہ حاصل کیا اور بعد ازاں 150 کروڑ روپے سالانہ ڈویلپمنٹ پروگرام میں بھی شامل کروا دئیے ایک اچھا چلتے چلاتے کالج کو جو علاقے کے طلبہ کی بہتر خدمت سر انجام دے رہا ہو کو ختم کر کے کسی نوزائیدہ یونیورسٹی قائم کرنا جس کی کوئی کہیں حثیت نہ ہو کوئی عوامی خدمت نہ ہو گی اتحاد اساتذہ کا ہمیشہ سے موقف ہے کہ ذہین بیوروکریسی اور سیاستدان اگر اس ملک کو تجربات کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہی ہیں تو ضرور کریں مگر چلتے چلاتے اداروں کو ختم کر کے نہیں الگ سے زمین لے کر وہاں بلڈنگ تعمیر کر کے عالمی معیار کی لیبارٹریاں معیاری فیکلٹی اور دیگر سہولیات فراہم کر کے ضرور کریں ویسے ڈسکہ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر چار پانچ یونیورسٹیاں پہلے ہی موجود ہیں ان کی سہولیات میں اضافہ زیادہ مستحسن اقدام ہوگا گورنمنٹ کالج ڈسکہ کے ٹیچنگ اسٹاف نے ایک قرارداد اس ضمن میں پاس کی ہے بہتر ہوگا کہ سیاست دان انتظامی افسران ڈائریکٹر ڈپٹی ڈائریکٹر کی بجائے پیپلا کے عہدے داروں کو ان بورڈ لیں معاملے کو اچھی طرح سمجھیں اور پھر عملی قدم اٹھائیں تاکہ ممکنہ قومی نقصان سے بچا جا سکے