سوال یہ ہے کہ تمام سرکاری و پرائیویٹ دفاتر کا عملہ پچاس فیصد ورک فرام ہوم کے مطابق کام کریں گے سیکریٹریٹ کے بابو بھی ورک فرام ہوم کے تحت کام کریں نوٹیفکیشن محکمہ تحفظ ماحول اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جاری کر چکا ہے جواز اس کا یہ دیا گیا ہے کہ یوں ٹریفک کا بوجھ کم کیا جا سکے کیا گریجویٹ طلباٗ وطالبات اور ان کے اساتذہ پیدل کالجز میں آتے ہیں اور آلودگی کا ان کے گلے و آنکھوں کو متاثر نہیں کرتی یا پھر محکمہ ہائر ایجوکیشن کی انتظامیہ عقل سے عاری ہے
لاہور ( نمائندہ خصوصی )ائیر کوالٹی انڈیکس کی بگڑتی صورتحال نے صوبے بھر کے نظام کو دھرم بھرم کر کے رکھ دیا ہے ہر جگہ یہی زیر بحث ہے اور روزانہ نئے نئے فیصلے کیے جا رہے ہیں کئی نئے نئے نوٹیفکیشن جاری ہو رہے ہیں ایک نوٹیفکیشن محکمہ تحفظ ماحول ایجنسی نے جاری کیا ہے جس کے مطابق سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ کم کرنے کے لیے تمام دفاتر کے پچاس فیصد ملازمین کو ورک فرام ہوم کے تحت پابند کیا گیا ہے اور سختی سے اس پر عمل درآمد کروانے کی ہدایت کی گئی ہے دوسرا نوٹیفکیشن محکمہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بابوں نے اس رعایت سے فائیدہ اٹھانے کے لیے خود ہی کر لیا ہے کہ محکمہ کے دفاتر کے ملازمین ورک فرام ہوم کریں گے اور گھروں میں موجیں کریں گے انٹرمیڈیٹ یا ہائر ایجوکیشن کلاسز یا اے لیول کے طلباء وطالبات کے لیے پہلے یہ حکم آیا کہ طلباء وطالبات گھروں میں ان لائن تعلیم حاصل کریں گے لیکن اساتذہ کالجز سے درس دیں گے مگر کھلے تضاد کے پیش نظر اس میں تبدیلی کرکے اب یہ کر دیا گیا ہے کہ اساتذہ بھی گھروں سے ہی ان لائن لیکچر دیں گے مگر ایک اور کھلا تضاد جو محکمہ چلانے والی انتظامیہ کی عقل میں نہیں آتی کہ ایسوسی ایٹ ڈگری و بی ایس پڑھنے و پڑھانے والے بھی اداروں میں آتے ہیں انہی سڑکوں سے آتے ہیں کسی موٹر سائیکل کار بس وغیرہ سے ہی آتے ہیں ان کی وہیکل دھواں نہیں چھوڑتے یا ماحول کی آلودگی ان کی ناک آنکھوں پر اثر نہیں کرتی انہیں بھی آن لائن کر دیا جائے تو شاید مسلے پر قابو پانے میں آسانی پیدا ہو جاتی