ڈاکٹر نیاز احمد سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے وائس چانسلر بنے اور پھر سنیارٹی میں سنیارٹی میں ساتویں نمبر پر ڈاکٹر سلیم مظہر کو پروسیس چانسلر لگوایا
وزیر اعلی کا دوست فیاض بزدار۔ڈاکٹر نیاز اور ڈاکٹر سلیم مظہر سارا دورانیہ من چاہی پوسٹنگ کرتے رہے میرٹ کی خلاف ورزیاں ڈاکٹر شبیر سرور جیسے کئی واقعات اب سامنے آرہے ہیں
غیر معیاری تقرریوں سے جامعہ کا معیار گرا موجودہ وزیر اعلی اور حکام اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائیں اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے اور مستقبل میں ایسا نہ ہونے دیا جائے ڈاکٹر امجد مگسی ۔سردار اصغر اقبال اور ڈاکٹر اسلام کی میڈیا سے گفتگو
اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن پنجاب یونیورسٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر امجد سلیم مگسی ۔پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اراکین پروفیسر سردار ڈاکٹر اصغر اقبال اور ڈاکٹر محمد اسلام نے پریس ریلیز میڈیا ٹاک کے ذریعے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کے دور کی بے شمار بے ضابطگیوں کا پردہ چاک کیا ہے پنجاب یونیورسٹی کے دفتر کے بہت سے کارکنان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ سابق وزٹ اعلی پنجاب عثمان بزدار کا ایک دوست فیاض بزدار سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز کا ھی دوست تھا دوستوں لاہور میں انجیرنگ کے طالب علم تھے ایک علاقے اور ہم پیشہ ہونے کی بنا پر شناسائی دوستی میں بدل گئی ڈاکٹر نیاز کیونکہ جمعیت اور بعد جماعت اسلامی کی ذیلی اساتذہ تنظیم تنظیم اساتذہ سے وابستہ رہے اس اثر و رسوخ کی بنیاد پر وائس چانسلر بنے جب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی بن کئے تو فیاض بزدار کا یہاں آنا جانا ہوگیا جب عثمان بزدار وزیر اعلی بن گئے تو وزیر اعلی ہاؤس کےتعاون و معاونت سے یونیورسٹی کو من مانیوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا میرٹ کی دھجیاں بکھیری گئیں ہر سطح کی پوسٹنگ ایڈجسمنٹ میرٹ کو بالا طاق رکھ کر کی گئی موجودہ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر اور ڈاکٹر خالد خان کی بطور رجسٹرار تقریریں اس کی چند مثالیں ہیں ڈاکٹر سلیم مظہر کو جو اس وقت سنیارٹی میں ساتویں نمبر پر تھے پرو وائس چانسلر لگوایا گیا شعبہ انجینرنگ کے ڈاکٹر محمد تقی زاہد۔ شماریات کے ڈاکٹر شاہد کمال اردو کے فخر الدین نوری شعبہ جغرافیہ کے ڈاکٹر تبسم جمال شاد انسٹیٹیوٹ آف ایڈمن سائنسز کی ڈاکٹر ناصرہ جبیں ان سے سینئر تھے ان میں سے اکثر تو ریٹائر ہو گئے مگر ڈاکٹر تقی بٹ پر فوقیت دے کر انہیں پی وی سی لگوایا گیا من مانی پوسٹنگ میں ایک کہانی میڈیا پر عام ہے اور زبان زدِ عام ہے وہ ماس کمیونیکیشن کے ڈاکٹر شبیر سرور کی ہے جس پر سنڈیکیٹ میٹنگ میں بھی بحث ہوئی اور اس کی اپرول دینے کی بجائے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ایسے کئی قصے ہیں جو آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہے ہیں اس میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ما سوائے سنڈیکیٹ کے جند ممبران کے باقی مصلحتاً خاموش رہتے ہیں جبکہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خاموشی مجرمانہ ہوتی ہے