سرکاری ملازمین کے درمیان عدم یکسانیت الاونسز کی بنیاد پر شروع ہونے والے احتجاج کی تاریخ سے ہر کوئی آگاہ ہے گرینڈ الائنس اور آگیگا کی فروری کی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے پچیس فیصد ڈسپیرٹی ریڈکشن الاؤنس دینے کا اعلان کیا نوٹیفیکیشن ہوا اور پھر عملی شکل میں بھی آگیا مگر پنجاب گورنمنٹ باوجود وفاق کی ہدایت کے حسب روایت اس کی راہ میں روڑے اٹکائے نتیجتاً یہاں بھی طے شدہ معاملے پر عمل درآمد کروانے کے لیے احتجاج کی راہ اختیار کرنا پڑی
نجاب کے سرکاری ملازمین کے اتحاد (آگیگا) نے 24مارچ کو سیکریٹریٹ کے سامنے دھرنے کا اعلان کیا تو اس دھرنے میں شرکت کیلئے پورے پنجاب سے بلا تخصیص ہر محکمے اور ہر یونین نے بھرپور شرکت کی اور ایک پاور فل شو منعقد ہوا جس کے نتیجے میں دھرنے کے منتظمین کو مزاکرات کی دعوت دی گئی۔ آگیگا کے درجن بھر لیڈران وزیر قانون راجہ بشارت کے پاس پہنچے تو اس نے ان کی خاطر مدارات کے ذریعے ان کے دل موہ لیے اور اپنے پلان کے تحت انہیں دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اور لیڈران نے شرکاء کے ردعمل سے بچنے کے لئے گو مگو کی کیفیت پیدا کر کے مظاہرین کو اٹھا کر ریونیو بورڈ میں دھرنے میں بٹھا دیا اور جانے والوں کو جانے دیا اور اس طرح دھرنے کو تتر بتر کر دیا۔ اگلے روز ریونیو بورڈ میں دھرنے والوں کو بھی وہیں سے اٹھ جانے کا حکم صادر کر دیا جہاں سے اختلاف شروع ہو گیا۔ دھرنا ختم نہ کرنے والوں کا اصرار تھا کہ حکومتی وعدے نا قابل اعتبار ہیں لہذا دھرنے کے ذریعے دباؤ برقرار رکھا جائے۔کیونکہ فنانس سیکرٹری نے وزیر اعلیٰ کے لئے جو لیٹر لکھا ہے وہ نیگیٹو ہے مگر راجہ بشارت کے ساتھ تصویر بنوانے والوں نے ایک نہ سنی اور دھرنے کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ جن کا خیال تھا کہ دھرنے کا خاتمہ غیر عقلی ہے، انہوں نے آگیگا ہمخیال بنا لی اور آپس میں میٹنگز شروع کر دیں اور آگیگا سے باہر والی تنظیموں سے رابطے شروع کر دیے۔ اسی سلسلے میں وہ پپلا کے قائمقام صدر سے ملے اور انہوں نے اپنی ایگزیکٹو کونسل سے منظوری لیکر دھرنا میں شرکت کیلئے حامی بھر لی۔ اسی دوران راجہ بشارت نے کمیٹی کمیٹی کھیل کر اپریل بھی نکال دیا اور اس مایوس کن صورتحال میں آگیگاہمخیال نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا اور 26 مئ کو دھرنا دینے کا اعلان کردیا جس کو سبوتاژ کرنے کے لئے آگیگا مذاکراتی نے اس سے پہلے 20 مئ کو دھرنے کا اعلان کردیا جس پر دونوں دھڑوں کی مشترکہ میٹنگ میں صلح صفائی ہو گئی اور طے پایا کہ 20 اور 26 کے دونوں دھرنے مؤخر کر کے 7 جون کو دیا جائیگا اور 20 اور 26 کو ایک روزہ احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ لہزا آگیگا ہمخیال اور اس کی اتحادی پپلا اس میں شامل ہوئے مگر آگیگا مذاکراتی کے دل میں کھوٹ تھا چنانچہ ان نام نہاد مذاکراتی لیڈران نے عصر کے وقت سیکریٹریٹ کا ایک چکر لگا کر واپس آ کر اچانک دھرنے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ انہوں نے وعدہ خلافی کی تھی مگر ان کی اس چالاکی کے باوجود آگیگاہمخیال اس میں شامل ہو گئی مگر دوسرے ہی روز سانس پھول گیا اور پھر چالبازی سے اچانک دھرنے کے خاتمے کا اعلان کردیا جس پر دھرنے کے شرکاء نے اپنے ان نام نہاد چالباز لیڈران کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی اور وہ بھی شیم شیم شیم شیم کی تاب نہ لاتے ہوئے لوگوں سے جان چھڑا کر دوڑ نکلے۔ اب آگیگاہمخیال پر لوگوں نے پریشر ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ اس دھرنے کو سنبھالیں چنانچہ کافی غور وفکر کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ 26 کی تاریخ برقرار رکھی جائے اور نوٹیفکیشن تک بیٹھے رہنا چاہئے۔
26 مئ کو دھرنا شروع ہوا تو آگیگا ہمخیال جرآت اور حوصلے سے جم کر بیٹھ گئی۔ مگر آگیگا مذاکراتی نے اس دوران بار بار موقف تبدیل کئے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ وہ اس دھرنے میں شریک ہوں گے اور نوٹیفکیشن جاری ہونے تک بیٹھے رہیں گے۔ جب آگیگا ہمخیال کی طرف سے انہیں خوش آمدید کہا گیا تو انہوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا اور مخالفت شروع کردی اس پر جب ان کو منہ کی پڑی تو انکو اخلاقیات یاد آگئی۔ بہرحال جلد ہی طوطی کی آواز نقارخانے میں گم ہو گئی اور دھرنے کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ اور آگیگا سے باہر ایپکا کے حاجی ارشاد گروپ سمیت دیگر ملازمین کی ایسوسی ایشنوں نے دھرنے کا حصہ بننے کا اعلان کردیا اور عملی شرکت کیلئے آنا شروع کر دیا تو حکومت نے نوٹس لیا۔ شو کاز نوٹس اور دھمکیوں سے بات بڑھ کر مزاکرات تک پہنچ گئی۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری میڈم ارم بخآری نے انہی زبانی کلامی وعدوں اور یقین دہانیوں سے کام شروع کیا اور چیف سیکریٹری کی انٹر ڈیپارٹمنٹل سیکرٹریز میٹنگ کے بعد اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ اس میٹنگ کا سیکرٹری لیول کا بندہ تحریری شکل میں اپنے الفاظ لیکر دھرنے میں آئے اور آگر دھرنے کے شرکاء مطمئن ہوں تو دھرنا مؤخر کر دیا جائے گا ورنہ جاری رکھا جائے گا اور ایسا ہی ہوا اور اتفاق رائے سے دھرنا مؤخر کر دیا گیا۔
اس چھ روزہ دھرنے نے حکومت کو بڑی اچھی طرح پیغام دے دیا ہے کہ نام نہاد مذاکراتی لیڈران ایک حد تک ہی حکومت کو ریلیف فراہم کر سکتے ہیں جیسا کہ مارچ،اپریل اور مئ تین مہینوں کے بقایاجات حکومت ان کے ذریعے ہضم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ البتہ اگر بجٹ میں وفاقی حکومت سے ہٹ کر کوئی چال چلی گئی تو شدید ردعمل ہو گا اور اس ردعمل کو چینلائز کرنے کے لئے متبادل پلیٹ فارم موجود ہے جو نہ بکتا ہے نہ جھکتا ہے۔ اور آگر کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا تو راجہ کی دیوانی زیرو ہو گی۔ علاوہ ازیں اس کامیاب دھرنے نے سرکاری ملازمین کو اعتماد دیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں اور کوئی اب ان کا سوداگر نہیں بن سکتا۔