سرائیکی زبان کے نامور شاعر ۔بائیں بازو کے دانشور اور انگریزی ادب کے استاد پروفیسر عابد عمیق آج وفات پا گئے ان کی عمر تقریباً چھہتر برس تھی اور وہ ملتان کے ملت کالج سے 2006 میں مدت ملازمت مکمل کر کے ریٹائر ہوئے عابد عمیق کی ساری زندگی جد و جہد میں گزری انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا 1977 میں مارشل لاء لگا تو ان کی پوسٹنگ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال میں تھی ان کا جمہوریت کے لیے آواز اٹھانا اس وقت کی حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھا لہذا 1981 میں انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا جہاں وہ تین ماہ پابند سلاسل رہے ساتھ ہی انہیں اٹک کے گاؤں ناڑہ کنجور ٹرانسفر کر دیا گیا جہاں انہوں نے صعوبت بھری رندگی گزاری پیسوں کی کمی تھی اور بیماری کا ساتھ تھا وہ زمانہ تھا ان کا ایک گردہ ناکارہ ہو گیا تھا اور سفر کرنا ان کے لیے تکلیف کا باعث تھا مگر انہوں نے کسمپرسی میں زندگی گزاری مگر سر نہیں جھکایا مارشل لا کی سختیوں میں کمی آئی تو ٹرانسفر کروا کر ملتان ا گئے ابتدا میں اردو میں شعر کہتے تھے مگر دوستوں کے اصرار پر سرائیکی میں کہنے لگے ان کا بہت سا کلام تو غیر مطبوعہ ہی رہا مگر کچھ دوستوں نے ہمت کر کے دو مجموعے شایع کروا ہی دئیے ان میں ایک ،تل وطنی، اور دوسرا ،پکھی وانگ راستہ ، ہے عابد عمیق بلا کے سگریٹ نوش تھے جس سے دونوں پھیپھڑے متاثر تھے آخری عمر میں سانس کی تکلیف میں مبتلا رہے گزشتہ برس ان کی شریک حیات وفات پا گئیں تو انہوں نے اس صدمے کا گہرا اثر لیا اور وہ زمانے سے کٹ کر رہ گئے اور اسی تنہائی میں ہی وفات ہوئی اتحاد اساتذہ اور بائیں بازو کے ساتھیوں نے ان کی وفات پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے
previous post