اگر ہم فیض صاحب کی شخصیت کے لئے کوئی ترکیب وضع کرنا چاہیں تو باآسانی انہیں باعمل اشتراکی یا عملی کمیونسٹ کہا جا سکتا ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں جن نظریات اور تصورات کے پرچار کا آغازاپنی پہلی کتاب ”نقش فریادی“ کے نصف آخر سے کیا ۔اپنی عمر کے اختتام تک ان پر قائم رہے اگرچہ جب انہوں نے اعلان کیا کہ
اوربھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا ………………..راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا اس کی وجہ بھی انہوں نے بیان کردی
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم …………………… ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے گئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم …………………. خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے.…………………… اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے
لیکن ہمارے بہت سے نقادذاتی عناد کی بنا پر محبوب کو محبت کی راہوں میں بھٹکتا ہواچھوڑ دینے کو فیض صاحب کی بزدلی اور ان کی شخصیت کا ادھورا پن گردانتے تھے ۔غالبا ً ذات سے لاذات، مجاز سے حقیقت اور فرد سے اجتماع کی جانب ارتقاءکا تصور ان کے شعور کی گرفت سے ہی ماورا ہے یا پھر وہ کسی تعصب کی بنیاد پر یہ بات کرتے ہیں۔علی مدیح ہاشمی اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتے ہیں
فیض کے اپنے الفاظ ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے میرے سامنے نئی دنیائوں کے راز کھول دیئے ۔۔۔اپنے اردگرد کی دنیاسے اپنی ذات کو الگ کر کے سوچنا با لکل فضول بات ہے۔ ذاتی دکھوں اور دنیا کے دکھوں کے حقیقت در ا صل ایک ہی ۔“(The Life and Poetry of Faiz Ahmad Faiz)ہے
فیض صاحب کے والد سلطان خان اپنے آبائی علاقے کا لاقادر (نارووال) میں گڈرئیے کا کام کرتے تھے۔وہ ذاتی استعداد اورمحنت کی بدولت امیر افغانستان کے مشیر خاص کے عہدے تک جا پہنچے ۔انہوں نے دنیا داری کے لحاظ سے کامیاب زندگی کے لوازمات مکمل کئے۔آبائی علاقے میں زمین جائداد جمع کی،متعدد شادیاں بھی کیں۔
(The Life and Poetry of Faiz Ahmad Faiz)
فیض نے جب ہوش سنبھالا اور سکول میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو والد کا اثرورسوخ سیالکوٹ میں قدم قدم پر ان کا ہم رکاب رہا ۔یہاں فیض صاحب کے بہت سے مہربان ایسے بھی ہیں جوان پر اسی حوالے سے تنقیداپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ وہ عیش پسند تھے ، طبقہ امراءمیں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا ،شراب کے رسیا تھے۔بھلا مزدوروں اور نچلے طبقات کے افراد کے مسائل سے ان کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔وہ یہ محض دکھاوے کی خاطر کرتے تھے یامحض تصوراتی اور نظریاتی سطح پر اپنی شاعری میں ان مسائل سے ہمدردی جتاتے تھے کیونکہ یہ اس دورکی مقبول عام سوچ تھی۔ بعض ایسے بھی ہیں جو فیض صاحب کے نظریات کا مارکسی رنگ چھپانے کے لئے ان کو محض انسان دوستی کے مبہم پردے میں لپیٹ دیتے ہیں۔ان مہربانوں کے جواب میں فیض صاحب کی بیوی، نواسے اور ان کے پبلشر کی تحریروں میں سے کچھ اقتباسات درج کیے جارہے ہیں۔ جن کے ذریعے انتہائی مختصر انداز میں ان کی زندگی اور فلسفہ زندگی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ تحریریں کسی سیاسی نظریہ ساز، مار کسی دانشور یا ان کی زندگی کونئے سرے سے پینٹ کرنے کی کوشش کرنے والے ترقی پسندکی جانب سے نہیں ہیں (اگر چہ دائیں بازو کے بہت سے دانش ور فیض کی زندگی اور شاعری میں موجود نظریات کی نئے سرے سے تشکیل کی کوششوں میں مصروف ہیں)۔
سال 1934ء میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فیض نے لیکچر ار کی حیثیت سے ایم اے او کالج امرتسرمیں ملازمت اختیار کی وہاں ان کی ملاقات صاحبزادہ محمود الظفر اور ان کی بیگم رشید جہاں سے ہوئی جنہوں نے فیض کو انجمن ترقی پسند مصنفین میں شمولیت پر قائل کیا، وہاں فیض کی زندگی اور نقطہ نظر ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوگئے۔فیض نظریاتی طور پر ہی تبدیل نہیں ہوئے تھے اور نہ یہ تبدیلی انہوں نے محض شاعری کی زینت کی خاطر اپنائی تھی بلکہ انہوں نے زمانے کے دکھوں کو کم کرنے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز بھی فوراً ہی کردیاتھا۔ معروف صحافی م۔ش مرحوم کو ہفت روزہ” اقدام“ لاہو ر کے لیے جنوری 1950ءمیں دیے گئے ایک انٹرویو میں فیض کہتے ہیں
” میں نے امرتسر کے صنعتی علاقے میں کام شروع کیا اور مزدوروں کے مسائل میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ان دنوں میں امرتسر لیبر فیڈریشن کارکن تھا۔ اس فیڈریشن کا آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس سے الحاق ہوچکاتھا۔ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن اس ٹریڈ یونین کانگریس کی وارث ہے“۔(فیض شناسی،ص 36,37
فیض یہاں مزدوروں کے سٹڈ ی سرکلزلیتے تھے ۔عظیم مزدوررہنما بشیر بختیار مرحوم اپنی یادداشتوں میں فیض اور ان کے دیگر ساتھیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
” یہ اسٹڈی سرکل بہت فائدہ مند ثابت ہوئے۔ ان کی بدولت مختلف یونینوں میں کام کرنے والے کارکنوں میں مزدور تحریک کے متعلق سوجھ بوجھ پیدا ہوگئی اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں سیاسی شعور بھی بیدار ہوگیا“)فیض شناسی،ص 38
فیض صاحب کا یہ سفر یہیں پہ نہیں رکا بلکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کردیا اور دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں نے محوری طاقتوں کے خلاف اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو فیض نے بھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کہنے پر فوج میں شمولیت اختیار کرلی ۔وہاں بھی انہوں نے فوجیوں کے سٹڈی سرکلز کا آغاز کردیا تھا۔ ایلس فیض ایک انٹرویوں میں بتاتی ہیں ۔
”جنگ بڑھی تو فیض پارٹی کے کہنے پر فوج میں بھرتی ہوگئے اور ان کی تعیناتی دہلی میں ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بعد میں ہم لوگ خود دہلی آگئے اور فیض کے ساتھ ٹینٹوں میں رہنے لگے۔ فیض فارغ وقت میں فوجیوں کا اسٹڈی سرکل لیا کرتے تھے۔ جس میں تیس چالیس امریکی ، برطانوی اور انڈین فوجی شریک ہوتے“۔(جمیل عمر ،مرتب،نیا پاکستان کتابی سلسلہ شمارہ 2جلد 1991،2)
ایک فن کار کی حیثیت سے معاشرے کی طرف سے جو ذمہ داری ان پر عائد ہوئی تھی فیض کبھی اس سے غافل نہیں ہوئے۔ ایک باشعور سیاسی کارکن کی حیثیت سے عوام کو ہر لحاظ بدلتی سیاسی صورتحال کے متعلق آگاہی دینا وہ اپنا فرض منصبی سمجھ کر پورا کرتے تھے ۔خواہ ان کی رائے مقبول عام رائے سے کسی بھی حدتک مختلف کیوں نہ ہو۔ جون 1947کے بعد ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا تووہ بے اختیار پکار اٹھے
یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
”یہ نظم فیض نے غالباً جون جولائی1947میں کہی تھی اور اگست ستمبر1947کے رسالہ نرگس میں ”سحر“ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔“(فیض شناسی،ص102
قیام پاکستان کے بعد فیض نے پاکستان ٹائمز کے مدیر کی حیثیت سے ترقی پسند نظریات کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کرتے رہے ۔پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن قائم ہوگئی تو مرزا ابراہیم اس کے صدر اور فیض اس کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ فیض کا دائرہ عمل صرف فیڈریش کے کاموں تک محدود نہ رہا بلکہ انہوں نے دیگر مزدور تنظیموں کے لئے بھی کام کیا۔ پوسٹ مین اینڈ لوئر گریڈ سٹاف یونین کے صدر بھی چنے گئے۔ کراچی میں مچھیروں نے یونین بنائی تو فیض نے ہر طرح ان کی رہنمائی کی ۔
اب ذکر کرتے ہیں راولپنڈی سازش کیس کا اس کیس میں کل 15افراد ماخوذ تھے جن میں سے 4سویلین تھے۔ ان 4میں سے ایک تو میجر جنرل اکبر کی بیگم نسیم اکبر تھیں۔ باقی تین میں کمیونسٹ پارٹی کے ارکان سجاد ظہیر اور محمد حسین عطا کے ساتھ فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ اس مقدمے میں ملوث کئے جانے سے ان کا عملی طور پر متحرک اور اثر پذیر ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ رﺅف ملک فیض شناسی کے صفحہ 83پر لکھتے ہیں کہ 10مارچ 1951کو پنجاب میں پہلے عام انتخابات ہورہے تھے اور کمیونسٹ پارٹی نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے۔ جن میں سے دو کے جیتنے کی امید بھی تھی۔ لیکن مسلم لیگ کو یہ برداشت نہ تھا ۔مبینہ سازشی اجلاس اگرچہ میجر جنرل اکبر کے مطابق 22فروری کو ان کے گھر پر منعقد ہوا تھا۔ جس میں کمیونسٹ پارٹی کے بغاوت میں شمولیت سے انکار کے بعد حکومت کا تختہ الٹنے کا پروگرام ترک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔لیکن گرفتاریاں الیکشن سے محض ایک دن قبل 9مارچ کو کی گئیں اوراسی دن لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان نے جن الفاظ میں اس واقع کے بارے میں بیان جاری کیا وہ کچھ اس طرح تھا ۔
”ابھی ذرا دیر پہلے پاکستان کے دشمنوں کی ایک سازش پکڑی گئی ہے “(فیض شناسی،ص65)
اسی لیے فیض کو کہنا پڑا
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
یہ شعر فیض کے دوسرے مجموعہ کلام دست صبا کے دوسرے ایڈیشن میں شامل ہے۔ جو اس وقت شائع ہوا جب وہ جیل میں ہی تھے بلکہ درج ذیل شعر راولپنڈی سازش کیس میں کمیونسٹ پارٹی کا نقطہ نظر مزید واضح کرتا ہے کہ انہوں نے سازش میں شمولیت سے انکار کردیا تھاجس کی وجہ سے بغاوت کی نوبت ہی نہیں آ سکی تھی۔
ہمیں نے روک لیا پنجہ جنوں ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے
راولپنڈی سازش کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی۔ پارٹی ارکان اور ہمدردوں پر سخت وقت تھا۔ پکڑ دھکڑ اور تشدد کی کاروائیاں جاری تھیں۔ لیکن فیض نے ہمت نہیں ہاری ،نہ کبھی ان کے قدم ڈگمگائے۔ ماسکو اور دنیا بھرمیں موجود آزادی کے متوالوں اور سامراج کے مخالفین سے ان کے رابطے برابر جاری رہے۔ 1958ءمیں مارشل لا ءلگا تو ماسکو سے واپسی پر ان کو ایک مرتبہ پھر قید کر دیا گیا اور ان کو بدنام زمانہ شاہی قلعے کے عقوبت خانے کی سیر کرنا پڑی۔
سال 1962ء میں فیض لینن امن انعام کے لئے ہوئے تو مارشل لا ءحکام کی جانب سے ان کو خبردار کیا گیا کہ وہ یہ انعام قبول نہ کریں لیکن وہ ماسکو گئے اور انعام وصول کیا اور تقریب سے اردو میں خطاب بھی کیا۔ ان کے نواسے علی مدیح ہاشمی لکھتے ہیں۔
“…he was warned by the military government not to accept the award.”(The Life and Poetry of Faiz Ahmad Faiz)
سال 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے موقع پر ان کے بعض دوستوں کی جانب سے حب وطن کے روائتی نغمے لکھنے کے لئے دباﺅ تھالیکن اس کی بجائے انہوں نے “سپاہی کا مرثیہ “لکھا۔جس میں جنگ کی تباہ کاریوں سے نفرت کا انداز جھلکتا ہے
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
تمہاری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
23مارچ1970ءکوٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی معروف کسان کا نفرنس میں انہوں نے شرکت کی اور وہاں انہوں نے اپنی طویل نظم “پھربرق فروزاں ہے سر وادی سینا”میں سے بھی چند اشعار سنائے۔یہ نظم عرب اسرائیل تنازعہ سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی
اٹھے گا جب جم سرفروشاں
پڑیں گے دار ورسن کے لالے
کوئی نہ ہو گا جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں پہ روز حساب ہو گا
ان اشعار پرباغیانہ ہونے کے الزام لگائے گئے۔ دائیں بازو کے اخبار نویس اور رہنماﺅں کی طرف سے بڑی لے دے ہو ئی اور نظم پر پابندی لگائے جانے کے مطالبے بھی ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچے کچھے پاکستان میں پہلی منتخب حکومت کو اقتدار ملا توفیض احمد فیض کو ثقافت کا مشیر مقرر کیا گیا۔یہ شاید واحد دور حکومت تھا جب فیض نے زندگی کے کچھ سال سکون کے ساتھ گزارے۔1977ءمیں مارشل لاءلگ جانے کے بعد وہ بیروت چلے گئے۔ جہاں ان کو ایفرو ایشیائی ادیبوں کے ترجمان میگزین “لوٹس”کی ادارت مل گئی تھی۔ یہاں انہوں نے فلسطین اور یاسر عرفات کی بھر پور حمایت کی اور اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا اور بیروت کا محاصرہ کر لیا تو فیض نے اہلیہ اور بچوں کو پاکستان واپس بھےج دیا لیکن خود یاسر عرفات کا پیغام آنے تک بیروت میں موجود رہے اور بالآخر ایک ڈپلومیٹ فیملی کے ساتھ نوکر کا بھیس بدل کر اسرائیل کے محاصرے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور شام کے راستے 8اکتوبر 1983ءکو پاکستان واپس پہنچ گئے ۔ ایلس فیض لکھتی ہیں
“اچانک ےاسر عرفات کا پیغام آیا کہ فیض کو بیروت سے نکل جانا چاہئے۔ بیروت سے نکلنے والے تمام راستے اسرائیلیوں کے قبضے میں تھے ۔۔۔۔۔ ایک پاکستانی پاسپورٹ ہولڈر کے لیے انہیں پار کرنا ناممکن ۔ فیض اسی حالت میں ایک ڈپلومیٹ کی فیملی کے ساتھ روانہ ہوئے۔ فیض کو بہت سے بچوں اور ایک بولنے والے طوطے کےساتھ پچھلی گاڑی میں نوکر بناکر بٹھایا گیا۔ہر روڈ بلاک پر بچے طوطے کو بولنے پر لگادیتے اور اس ہنگامے میں اسرائیلی فوجی چند ایک سفارتی پاسپورٹ دیکھ کر قافلے کو آگے جانے دیتے“۔(فیض شناسی،ص112
فیض کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی نظریئے اور کمٹ منٹ کے ساتھ گزاری۔ کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب ان کے قدم ڈگمگائے ہوں وہ چاہتے تو غالباً نہایت خوش حال زندگی گزار سکتے تھے لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کو وجہ سے زندگی کے چند سال (جب وہ پیپلز پارٹی کے دور میں مشیر رہے اور کسی حد تک راولپنڈی سازش کیس سے قبل جب وہ پاکستان ٹائمز کے مدیر تھے)ہی آسودگی اور معاشی اطمینان کے گزار سکے۔ 1951ءمیں وہ گرفتار ہوئے تو گاڑی بیچ کرایلس فیض کو مقدمے کے اخراجات پورے کرنے پڑے اور وہ خود سائیکل پر پاکستان ٹائمز کے دفترجاتی تھیں۔ (فیض شناسی ،ص99)جہاں انہوں نے روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے نوکری کرلی تھی۔ حتی کہ” لوٹس “کی ادارت کے دوران بھی ان کی تنخواہ اس قدر قلیل تھی کہ یاسر عرفات کو علم ہوا تو انہوں نے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ فیض کی تنخواہ میں شامل کرنے کا حکم دیا(فیض شناسی، ص111)۔
فیض کی زندگی مصائب اور جدوجہد سے عبارت تھی۔ وہ غیر طبقاتی سماج کے قیام کے جس نظرئیے سے وابستہ تھے طبقہ اعلیٰ کے مقتدر حکمرانوں کے لیے وہ ہرگز پسندیدہ نہیں ہوسکتا تھا۔ فیض نے اپنا نظریہ اور جدوجہد محض شاعری میں ہی بیان نہیں کی بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ان کی شاعری دراصل ان کی عملی زندگی ہی کی ترجمان تھی۔ آج فیض اور ان کے سوشلسٹ نظریات کو انسان دوست اور غریبوں کا ہمدرد کی مبہم اصطلاحات کی دھند میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ترقی پسندوں اور فیض کے چاہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رجعت پسندوں اور استحصال کے حامیوں کی ان کوششوں کو ناکام بنائیں اور فیض کی شاعری اور شخصی جدوجہد کے اصل رنگوں کو پوری سچائی اور قوت کے ساتھ طالب علموں ،مزدوروں ، دانش وروں اور عوام تک پہنچا ئیں۔