انکم ٹیکس میں پچیس فیصد ربیٹ کو بحال رکھا جائے حکومت بھی وعدہ کر چکی ہے ٹیکس محتسب بھی فیصلہ دے چکے پھر کیوں ایف بی آر چھوٹ کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے
وائس چانسلر کی تقرری کے طریق کار بدلنے کے سندھ حکومت کے فیصلے کی پر زور مذمت کرتے ہیں سندھ کے یونیورسٹی پروفیسرز کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں
سرکاری ملازمین کی پینشن بچاؤ تحریک کے ساتھ ہیں دس فروری 2025 کو آگیگا کے بینر تلے ہونے والے احتجاج میں جامعات کے اساتذہ بھی شریک ہونگے
اسلام اباد(پریس کانفرنس )فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا پاکستان) کی جانب سے شعبہء اعلی تعلیم کو درپیش بحران، 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ کے خاتمے، جامعات کی خودمختاری میں حکومتی مداخلت، اساتذہ کے لیے پنشن رولز میں تبدیلی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی جامعات میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور سندھ کی جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کے قانون میں تبدیلی پر یوم سیاہ منانے کا اعلان۔
فپواسا پاکستان کی جانب سے اسلام آباد پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں فپواسا پاکستان کے مرکزی صدر ڈاکٹر امجد مگسی کے علاوہ فپواسا کے مرکزی جنرل سیکرٹری، ڈاکٹرمحمد عزیر، مرکزی نائب صدر، ڈاکٹر مظہر اقبال مرکزی انفارمیشن سیکرٹری ڈاکٹر احتشام علی، فپواسااسلام آباد چیپٹر کے صدر ڈاکٹر اقبال جتوئی کامسیٹس یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد خان جدون اور دیگر عہدہ داران نے شرکت کی
فپواسا کے مرکزی صدر ڈاکٹر امجد مگسی نے پریس کانفرنس میں ایف بی آر کی جانب سے اساتذہ اور ریسرچرز کو دی جانے والی 25 فیصد ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کو حکومت کی گورنس اور پارلیمینٹ کی خود مختاری کے لیے ایک سوالیہ نشان سے تعبیر کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اساتذہ اور ریسرچرز کے لیے 25 فیصد ٹیکس چھوٹ پہلے 75فیصد تھی جس میں مسلسل کمی ہوتی رہی، موجودہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں اسے برقرار رکھنے کا اعلان 28 جون 2024 کو بجٹ تقریر کے دوران خود وفاقی وزیر خزانہ نے کیا تھا اور اسے قومی اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بنایا گیا تھا لیکن مالی سال کے وسط میں اس چھوٹ کے خاتمے سے اساتذہ اور ریسرچرز میں مایوسی پھیل گئی ہے جس سے ان کی استعداد کار میں کمی واقع ہوگی۔ اساتذہ اور محققین کو ملنے والی 25 فیصد ٹیکس چھوٹ 2022، 2023 اور 2024 کے انکم ٹیکس مینوئل کا بھی حصہ ہے، اور یہ چھوٹ انھیں موجودہ سال تک ملتی رہی ہے ، لیکن اب اچانک ہی ایف بی آر کی جانب سے اِس چھوٹ کے خاتمے کا اعلان قومی اسمبلی کی ہدایات اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے جس پر فپواسا کی جانب سے وزیر خزانہ کو خط لکھ کر توجہ دلانے کی بھی کوشش کی گئی ہے لیکن اس پر ابھی تک کوئی مثبت ردِ عمل نہیں آیا، صدرفپواسا نے مزید کہا کہ وفاقی ٹیکس محتسب پہلے ہی اساتذہ اور محققین کے حق میں 25 فیصد ٹیکس چھوٹ دینے کے حق میں فیصلہ کر چکے ہیں اور ایف بی آر اس ضمن میں صدر صدر پاکستان کے سامنے اپیل کر چکی ہے جسے مسترد کیا جا چکا ہے، لیکن ایف بی آر نے کہیں بھی اس کاروائی کا ذکر نہیں کیا۔ یہاں تک کہ پشاور ہائی کورٹ مارچ 2024 میں پشاور یونیورسٹی اساتذہ کے حق میں 25 فیصد ٹیکس ریبیٹ کا فیصلہ دے چکی ہے۔ فپواسا صدر نے وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ کیا کہ پارلیمینٹ اور آئین کی بالادستی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایف بی آر کے جانب سے جاری اس غیر آئینی اور غیر قانونی نوٹیفیکیشن کو واپس لینے کا اعلان کریں اور جامعات کو فوری ٹیکس کٹوتی سے روکنے کے احکامات جاری کریں۔
فپواسا صدر نے سندھ حکومت کی جانب سے وائس چانسلرز کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے خلاف فپواسا سندھ چیپٹر کی جانب سے جاری احتجاجی تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ اساتذہ کے جائز مطالبات پر ایک جمہوری حکومت کے جمہوری وزیر اعلی کی جانب سے دیا جانے والا ردِعمل انتہائی مایوس کن اور قابل مذمت ہے، جس سے اساتذہ کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سندھ کی تمام یونیورسٹیوں میں تعلیمی بائیکاٹ جاری ہے اور صوبہ بھر کے اساتذہ سراپا احتجاج ہیں، لیکن پھر بھی حکومت کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔
فپواسا قیادت نے صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری اور چئیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے مطالبہ کیا کہ وہ جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اساتذہ کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور اِس بحران کا فوری حل نکالتے ہوئے وائس چانسلرز تقرری کے پرانے طریقہ کار کو فوراً بحال کریں۔
فپواسا قیادت نے پنجاب میں پنشن، لیو انکیشمینٹ اور ایل پی آر رولز میں تبدیلی کو ظالمانہ قدم قراد دیتے ہوئے اسے ملازم دشمنی سے تعبیر کیا اور کہا کہ سرکاری نوکری کو اپنی عمر کے قیمتی ترین سال دینے کے بعد ملازمین کو ان کی پینشن اور دیگر جائز مراعات سے محروم کر دینا انتہائی ظالمانہ اقدام ہیں، جن سے اساتذہ کی کارکردگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ فپواسا قیادت نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا کہ وہ پنجاب کی جامعات کو مطلوبہ فنڈز کی فراہمی اور ان کی خود مختاری کو یقینی بناتے ہوئے پنشن، ایل پی آر اور لیو انکیشمنٹ کے پرانے طریقے کو بحال کرے۔
فپواسا کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محمد عزیر نے خیبر پختونخواہ کی یونیورسٹیوں کے ایکٹ کی خلاف ورزیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے
کہا کہ صوبائی سیکرٹری کی اجازت کے بغیر آج خیبر پختونخواہ کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اساتذہ کی تقرریوں کے اشتہار دینے سے بھی معذور ہیں، جس سے یونیورسٹیوں کی خود مختاری بری طرح مجروح ہورہی ہے۔ اِسی طرح خیر پختونخواہ کی بہت سی جامعات میں جہاں اساتذہ کی تنخواہیں بے قاعدگی کا شکار ہیں وہیں کچھ جامعات میں اساتذہ کئی مہینوں کی تنخواہوں سے محروم ہیں اور کوئی اُن کا پرسان حال نہیں ہے۔ فپواسا جنرل سیکرٹری نے خیبر پختونخواہ کی حکومت سے پُرزور مطالبہ کیا کہ وہ یونیورسٹیوں میں سیاسی اور حکومتی دخل اندازی کو ختم کر کے جامعات کو اِن کے ایکٹ کے مطابق چلنے دیں۔ انھوں نے خیبر پختونخواہ کے اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے مسئلے کو بھی فوری طور پر حل کرنے کا مطالبہ کیا۔
فپواسا قیادت نے بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں جاری مالی بحران کا بھی ذکر کیا اور وہاں کی جامعات میں اساتذہ کی تنخواہیں جاری نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ فپواسا قیادت نے بلوچستان کے اساتذہ کو درپیش شدید مالی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بلوچستان حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر مسائل حل کرنے کے لیے فوراً عملی اقدامات کرے اور یونیورسٹیوں کی خود مختاری اور ایکٹ میں دخل اندازی سے گریز کریں۔
فپواسا قیادت نے چئیرمین ایچ ای سی مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی ایس فیکلٹی کے اساتذہ کی تنخواہوں میں 2021ء سے اضافہ نہیں ہوا اس لیے فوری طور پر ٹی ٹی ایس کی فیکلٹی کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے۔
فپواسا پاکستان کی قیادت نے چاروں صوبوں کی جامعات میں جاری بحرانی صورت حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 30 جنوری 2025ء بہ روز جمعرات کو ملک بھر کی جامعات میں نہ صرف یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا بلکہ حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں کے خلاف اگیگا اور پیپلا کی جانب سے 11 فروری کو اسلام آباد میں پارلیمینٹ ہاوس کے سامنے دی جانے والی احتجاجی کال میں بھی شرکت کا اصولی فیصلہ کیا۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر فپواسا قیادت نے صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، وفاقی وزیر خزانہ اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک بھر کی جامعات کو درپیش مالی اور انتظامی مسائل حل کرنے کے لیے فوری طور پر اپنا کردار ادا کریں تا کہ ملک بھر کی جامعات کے اساتذہ میں پھیلی بے چینی کا خاتمہ ہو اور وہ اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔